تحریر: امجد عثمانی۔۔
دہائیوں بعد، تحصیل پسرور کے گورنمنٹ پرائمری سکول منڈیالہ کو دیکھا تو ماضی کے دریچوں سے”خوشگوار یادوں”کی پھوار پھوٹ پڑی۔۔۔۔قطرہ قطرہ مہکتی یادیں۔۔۔منڈیالہ سکول میری پہلی مادر علمی ہے جہاں 80 کی دہائی میں والد گرامی جناب سلامت اللہ انگلی پکڑے مجھے پہلے استاد گرامی قدر جناب مشتاق احمد کے قدموں میں بٹھا آئے۔۔۔۔۔تب درس گاہیں “ادب گاہیں” ہوا کرتی تھیں اور طالب علم اساتذہ کرام کے سامنے باقاعدہ زانوئے تلمذ تہہ کیا کرتے تھے۔۔۔یہ 1980سے1996کے بیچ پیدا ہونے والی خوش قسمت “جنریشن وائے یا میلینلز “کا با ادب زمانہ تھا۔۔۔تب میرے ایسے دیہاتی بچے استاد کو ماسٹر کہا کرتےتھے۔۔۔پھر استاد کو سر کہنے والی 1996 سے 2010 تک کی “زی جنریشن” آگئی اور شاید یہ آخری نسل ہوگی جس نے استاد سامنے دیدہ و دل فراش راہ کیے ہونگے۔۔۔۔2010 سے 2024کی “الفا جنریشن” کے بعد اب 2025سے 2039کی “بیٹاجنریشن” نے آنکھ کھول لی ہے۔۔۔مصنوعی ذہانت کا مصنوعی دور۔۔۔۔جہاں اساتذہ کرام تو کیا شاید والدین بھی” اجنبی” ٹھہریں۔۔۔۔۔!!حسن اتفاق دیکھیے کہ سکول کے ہیڈ ماسٹر جناب شمس ہمارے ایک استاد شفیق صاحب کے بھتیجے نکلے۔۔۔انہوں نے شفیق صاحب سے فون پر بات بھی کرائی۔۔۔۔۔ابھی کچھ مہینے پہلے شفیق صاحب کی کھوج ملی۔۔۔ مڈل کلاس کے استاد جناب جاوید اقبال نے ایک دن فون کیا کہ میں سیالکوٹ کے ایجوکیشن دفتر بیٹھا ہوں ۔۔۔اپنے پرائمری استاد شفیق صاحب سے بات کرلیں۔۔۔میں نے تعارف کرایا تو کچھ توقف کے بعد پہچان گئے۔۔۔۔تب پتہ چلا کہ وہ خانپور سیداں سے خاندان ساتھ سیالکوٹ منتقل ہو چکے ہیں۔۔۔جاوید صاحب کے فوجی والد گرامی اللہ دتہ صاحب بھی ہمارے پرائمری استاد اور شفیق صاحب اور مشتاق صاحب کے رفیق کار تھے۔۔۔۔منڈیالہ کی مسجد والی گلی بھی جانا ہوا جہاں بچپن میں پانچ سال ہر روز گذرتے تھے۔۔۔۔پہلے پیدل پھر سائیکل پر۔۔۔یہاں طالب علموں سے پیار کرنے والے ایک علم دوست بزرگ اللہ دتہ صاحب کی دکان بھی ہوا کرتی تھی۔۔۔تب قلم دوات اور تختی کا زمانہ تھا اور ہم ان سے روشنائی لیا کرتے تھے۔۔۔ادھر ایک سکول فیلو مقصود صاحب بھی رابطہ ہو گیا ۔۔۔۔گورنمنٹ پرائمری سکول منڈیالہ اور پھر دوسری مادر علمی گورنمنٹ مڈل سکول گڈگور میں ہیڈ ماسٹر محمود صاحب پاس بیٹھے پرائمری استاد جناب مشتاق صاحب کی خیریت معلوم ہوئی تو دل ان سے ملاقات کو مچلنے لگا۔۔۔۔گڈگور مڈل سکول کے پڑوس میں ہی ان کا گائوں گلانوالہ ہے۔۔۔خیال تھا کہ مشتاق صاحب کافی ضعیف ہو گئے ہونگے اور صاحب فراش بھی۔۔۔۔سوچا چلیں ان کی چارپائی کے پاس بیٹھ کر ہی ان کی زیارت ہو جائے گی۔۔۔دعائیں ہی مل جائیں گی۔۔۔۔گڈگور سکول کے استاد جناب بشارت علی ان کے گھر لیکر گئے تو سب خیال ہوا گئے اور کم و بیش چار دہائیوں بعد بھی پہلے والے مشتاق صاحب کو اپنے سامنے پایا۔۔۔۔استاد گرامی قدر کو دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔۔۔معانقے اور مصافحے کے بعد وہ ہمیں گھر لے گئے۔۔۔اس موقع پر استاد اور شاگرد کے درمیان دلچسپ مکالمہ بھی ہوا۔۔۔۔کہنے لگےکہاں سے آئے ہی۔۔۔؟؟؟میں نے کہا لاہور سے۔۔۔۔کہنے لگے تعارف ؟؟؟؟میں نے کہا سر آج پہچانیں تو مانیں۔۔۔کبھی میری طرف دیکھتے۔۔۔۔کبھی سوچ میں پڑ جاتے اور پھر خود کلامی کرتے کون ہو سکتا ہے۔۔۔۔؟؟؟کچھ دیر دل و دماغ کے”حساب کتاب” کے بعد پہچان لیا اور کہنے لگے امجد صاحب۔۔۔۔میں نے کہا جناب آپ نے تو کمال کردیا۔۔۔اتنی شاندار یاد داشت۔۔۔۔اتنا شاندار حافظہ۔۔۔۔!!کہنے لگے بس اللہ کا کرم ہے۔۔۔مشتاق صاحب خوشی سے دیوانے سے ہو گئے۔۔۔۔پھر اٹھے اور مجھے گلے لگالیا۔۔۔۔۔فرط جذبات میں کہنے کچھ دن پہلے آپ کو بہت یاد کیا۔۔۔آپ کا نمبر بھی ڈھونڈا لیکن نہیں ملا۔۔۔میں نے کہا سر دیکھیں آپ نے یاد کیا اور اللہ نے آپ کے سامنے لا بٹھایا۔۔۔۔۔۔۔۔یہ 1988 کی بات ہے کہ جب جناب مشتاق احمد نے بطور ہیڈ ماسٹر ضلع سیالکوٹ میں پہلی پوزیشن کے ساتھ پرائمری پاس کا سرٹیفیکیٹ دیکر دعائوں ساتھ گڈگور سکول رخصت کیا تھا اور 37 سال بعد بھی پہچان کر اسی انداز سے گلے لگایا تو آنکھیں چھلک پڑیں۔۔۔۔بھاگے بھاگے اندر گئے۔۔گھر والوں کو اطلاع دی کہ میرا لاڈلا شاگرد آیا ہے۔۔۔کچھ کھلائو پلائو ۔۔۔خود ہی پانی اٹھا لائے۔۔۔چائے اور بسکٹ لے آئے۔۔۔پھر میرے ساتھ بیٹھ گئے۔۔۔ہر دس منٹ بعد کہتے کہ کھانا کھا کر جانا ہے۔۔۔میں نے بتایا کہ کھانا چونڈہ میں کالج کے استاد جناب پروفیسر محبوب عارف کے ساتھ طے ہے تو مان گئے۔۔۔۔لاہور سے 180کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے 37سال بعد استاد گرامی سے تقدس سے مزین 90 منٹ کی یہ پہلی باقاعدہ روح پرور ملاقات تھی۔۔۔۔انہوں نے بڑے چائو سے اپنے پہلو میں بٹھالیا۔۔۔۔بیٹھا تو میں ان کے پہلو میں تھا لیکن محسوس یوں ہو رہا تھا جیسے میں برسوں پہلے پہلی جماعت” میں ان کے قدموں بیٹھا ہوں اور بلبل کا بچہ پڑھ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔یادش بخیر مشتاق صاحب نے میرا شوق تعلیم دیکھتے ہوئے اس زمانے کی نرسری اور پہلی جماعت ایک ہی سال میں کرادی تھی۔۔۔چائے پر گفتگو شروع ہوئی تو استاد گرامی نے اتنی دل نشین باتیں کیں کہ دل کو قرار آگیا۔۔۔۔وہ ہمارے زمانے کے سکول میں چلے گئے اور بتانے لگے آپ نے پرائمری کے بورڈ امتحان میں 250میں سے 248نمبر لیکر ضلع سیالکوٹ میں پہلا نمبر لیا۔۔۔۔آپ کو وظیفہ ملا مگر وہ پسرور کے ڈپٹی تاج دین صاحب “ہڑپ “گئے۔۔۔بتانے لگے کہ آپ پانچویں میں ہی اتنا خوش خط تھے کہ بورڈ کے امتحان میں تنازع کھڑا ہوگیا کہ پانچویں کا بچہ اتنا خوب صورت نہیں لکھ سکتا۔۔۔پھر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر نے موقع پر آکر انکوائری کی اور شاباش دی۔۔۔کہنے لگے اس دن میرا سر فخر سے بلند ہوگیا اور میری دھوم مچ گئی۔۔۔مشتاق صاحب کو بات بات پر اظہار تشکر میں بھیگا پاکر میری آنکھیں بھی بھیگ گئیں۔۔۔کفران نعمت کے دور میں ایسے شاکر لوگ خال خال ہی ملتے ہیں۔۔۔۔مشتاق صاحب نے بتایا کہ1974میں میری بطوراستاد تقرری ہوئی اور شاندار تعلیمی کیر یئر کے بعد ریٹائرمنٹ لے لی۔۔۔بتانے لگے کہ اللہ کا شکر ہے 86 سال کا ہوگیا ہوں۔۔۔بلڈ پریشر ہے نہ شوگر۔۔۔آج بھی عینک بغیر اخبار پڑھ لیتا ہوں۔۔۔۔کہنے لگے اب بھی سائیکل پر ڈیرے پر جاتا ہوں۔۔۔ایک دو بھینسیں اور کچھ بکرے بھی پال رکھے ہیں۔۔۔بتانے لگے جب میری تقرری ہوئی تو گھر والوں نے کہا کہ آپ کو کوئی علیحدہ گھر نہیں ملے گا۔۔۔فصل اور مویشی نہیں ملیں گے کیونکہ آپ ماسٹر لگ گئے ہیں۔۔۔شادی ہوئی تو گوبر کے اپلوں والا دو تین بستر کا کمرہ ملا۔۔۔۔میرے سسرال سے ایک متمول خاتون ملنے آئیں اور کہا یہ کیا کمرہ ہے۔۔۔۔؟میں نے کہا کہ دن یہ بھی نہیں رہیں گے ۔۔۔کچھ سال بعد تھوڑا بہتر گھر بن گیا ۔۔۔۔پھر وہی خاتون ملنے آئیں تو میں نے پھر کہا کہ دن یہ بھی نہیں رہیں گے۔۔۔۔۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے اللہ کا کرم ہوگیا۔۔۔بڑے بیٹے نے آرمی جوائن کرلی اور ریٹائر بھی ہوگیا۔۔۔اب وہ اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے سیالکوٹ شہر میں رہائش پذیر ہے۔۔۔۔چھوٹے بیٹے کی امریکہ میں شادی ہوگئی اور وہ وہاں بہترین زندگی گذار رہا ہے۔۔۔۔ہمارے بھی وارے نیارے ہوگئے۔۔۔۔۔دس مرلے کی یہ خوب صورت کوٹھی بھی چھوٹے بیٹے نے سجائی ہے۔۔۔۔کہنے لگے یہی نہیں سات بیٹیوں کو پڑھایا لکھایا اور چھ کی دھوم دھام سے شادی بھی کردی۔۔۔شادی شدہ بیٹیوں میں کوئی پاکستان تو کوئی پاکستان سے باہر اپنے اپنے گھر گھر خوش ہے۔۔۔ایک بیٹی ابھی غیر شادی شدہ ہے اور ماں کی خدمت پر مامور ہے۔۔۔بچوں کا ذکر آیا تو پوچھنے لگے آپ کے کتنے بچے ہیں۔۔۔میں نے بتایا دو بیٹے دو بیٹیاں تو دعائیں دینے لگے۔۔۔مشتاق صاحب نے بتایا کہ میں نے ماں باپ کی بھی بہت خدمت کی اور میری ماں نے مجھے دعادی تھی کہ بیٹا اللہ تجھے اتنا دے کہ سنبھالا نہ جائے اور پھر واقعی اللہ نے اتنا دیا کہ سنبھالا نہیں جا رہا۔۔۔۔کہنے لگے ایک وقت تھا کہ گوبر کے اپلوں والا ایک کمرا بھی اتنا چھوٹا تھا کہ تین چار پائیاں نہیں سماتی تھیں۔۔۔ آج اتنی بڑی کوٹھی میں کمرے ہی کمرے ہیں لیکن خالی پڑے ہیں۔۔مکان کو مکین نہیں مل رہے۔۔مشتاق صاحب اتنے جذباتی تھے کہ واپسی پر گھر سے باہر تک چھوڑنے آئے۔۔۔گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور گلے لگا کر الوداع کہا۔۔۔۔استاد کا ایک ہی پروٹوکول ہے ۔۔کہ گردن جھکا دیں۔۔۔پلکیں بچھادیں۔۔۔میں بھی سر تسلیم خم واپس چل دیا۔۔!!!(امجدعثمانی)۔۔