سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کی توہین آمیز پریس کانفرنس نشر کرنے کی پاداش میں ٹیلی ویژن چینلوں کو جاری اظہار وجوہ کے نوٹس واپس لینے کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا ہےجس میں قراردیاگیا ہے کہ میڈیا کی آزادی کسی کو بدنام کرنے کی اجازت نہیں دیتی آئین کا آرٹیکل 19 اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے لیکن یہ حق قانون کے تابع ہے عدالت نے اظہار وجوہ کے نوٹسز پر جواب داخل کروانے کیلئے ٹی وی چینلوں کو مناسب وقت دیا تھا ٹی وی چینلوں کی جانب سے متفرق درخواستوں کے ذریعے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگی گئی اور یقین دہانی کرائی گئی کہ مستقبل میں ایسی غلطی نہیں دہرائی جائیگی، 26چینلوں کے مشترکہ وکیل فیصل صدیقی نے موقف اختیار کیا تمام ٹی وی چینلز یہ نشر کرینگے کہ انہوں نے عدالت سے معافی طلب کی ہے جبکہ 28جون کے عدالتی حکمنامہ کے متعلقہ قرآنی احکامات کے پیراگراف بھی نشر کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی ۔
سپریم کورٹ نے ٹی وی چینلز کے خلاف توہین عدالت کیس کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے ٹی وی چینلز کی غیر مشروط معافی قبول کر لی اور چینلز کو ساکھ بہتر بنانے کے لیے خود احتسابی کے نظام کو موثر بنانے کی ہدایت کی ہے۔ سپریم کورٹ نے ٹی وی چینلز کے خلاف توہین عدالت کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا جسے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا ہے۔پانچ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ نے معافی نامہ قبول کرتے ہوئے ٹی وی چینلز کو 17 مئی کو جاری کیے گئے شوکاز نوٹس واپس لے لیے ہیں۔عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ ٹی وی چینلز تحریری فیصلے کے پیرا ٹو کے تمام چھ ذیلی پیرے پرائم ٹائم میں نشر کریں۔فیصلے کے پیرا ٹو میں حکم دیا گیا ہے کہ تمام چینلز پرائم ٹائم میں یہ نشر کریں کہ انہوں نے سپریم کورٹ سے معافی مانگ لی ہے جبکہ 28 جون کی کارروائی پر مبنی فیصلے میں شامل چھ پیرے بھی نشر کیے جائیں۔پیرا ٹو کے ذیلی پیرا ون میں کہا گیا ہے کہ قرآن پاک الزام تراشی سے منع کرتا ہے، فیصلے میں حق گوئی اور بہتان سے ممانعت پر مبنی سورۃ ھمزہ، سورۃ القلم اور سورہ کہف کی آیات نقل کی گئی ہیں۔عدالت عظمیٰ نے فیصلے کے سب پیرا ٹو میں کہا کہ عدالت شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضامن ہے تاہم غلط خبروں کی تشہیر، شخصیات پر الزام، تراشی قرآن و سنت، آئین و قانون اور اخلاقیات کے قواعد و ضوابط کے برعکس ہے لہٰذا میڈیا حقائق پر مبنی رپورٹنگ کو اپنا شعار بنائے۔فیصلے میں کہا کہ وکیل فیصل صدیقی کے مطابق تمام 26 ٹی وی نیوز چینلز نے غیر مشروط معافی مانگی ہے، ہم جانتے ہیں کہ آئین کا آرٹیکل میڈیا کو آزادی فراہم کرتا ہے لیکن یہی آرٹیکل میڈیا کی آزادی کی کچھ حدود و قیود بھی متعین کرتا ہے۔اس حوالے سے کہا گیا کہ میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون گردانا جاتا ہے، آزاد میڈیا جمہوریت اور سچائی کے پرچار کے لیے بھی ضروری ہے لیکن میڈیا کی ساکھ کو اس وقت نقصان پہنچتا ہے جب وہ جھوٹ نشر کرتا ہے۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ٹی وی چینلز اپنی ساکھ بہتر بنانے کے لیے خود احتسابی کا موثر نظام اپنائیں، خود احتسابی کا عمل چینلز کو ان کی ساکھ کی بہتری میں مدد دے گا اور بہتر ساکھ کے ساتھ میڈیا غلطیوں کی نشاندہی کر کے بہتری لا سکتا ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ غیر مشروط معافی کے تناظر میں عدالت نے چینلز کو 17 مئی 2024 کو جاری شوکاز نوٹسز واپس لیے جاتے ہیں۔