پاکستان کے سب سے بڑے ٹی وی چینل جیونیوزکے کراچی میں بیورو چیف،سندھ حکومت کی پروٹیکشن آف جرنلسٹس کمیٹی کے رکن اور جیو ایکشن کمیٹی کے سربراہ کا کم تنخواہ پانے والے ملازمین کے حق میں آواز بلند کرنا جرم بن گیا۔جیونیوز انتظامیہ نے فہیم صدیقی کو بیک جنبش قلم فارغ کردیا، حیرت انگیز طور پر روزانہ آفس جانے والے فہیم صدیقی کو برطرفی کا پروانہ نہیں دیا گیا بلکہ انہیں یہ لیٹر گھر کے ایڈریس پر موصول ہوا۔۔ پپو کا کہنا ہے کہ ۔۔برطرفی کے پروانے پر تحریر تھا کہ ۔۔ اپوائمنٹ لیٹر میں درج آرٹیکل 12 کے تحت آپ کی مزید خدمت درکار نہیں، آپ کو فوری طور پر فارغ کیا جاتا ہے، اور ایک مہینے کی اضافی تنخواہ دی جائے گی۔پپو نے انکشاف کیا ہے کہ برطرفی کے اس پروانے سے متعلق ایم ڈی جیونیوز اور ڈائریکٹر نیوز تک کو علم نہیں تھا۔۔ جس سے لگتا ہے کہ مالکان نے معاملات اب براہ راست اپنے ہاتھ میں لے لئے ہیں۔۔ پپو نے امکان ظاہر کیا ہے کہ جیوکی ورکرز ایکشن کمیٹی کے دیگر ارکان کے ساتھ بھی ایسا ہوسکتا ہے۔پپو کا مزید کہنا ہے کہ فہیم صدیقی نے جب بیورو میں ساتھی رپورٹرز کو احوال بتایا تو کچھ رونے لگ گئے، لیکن پپو نے حیرت ظاہر کی کہ جو رپورٹرز کل تک بڑے بڑے دعوے کرتے تھےکہ فہیم بھائی آپ کے ساتھ کچھ ہوا یا آپ نے استعفا دیا تو ہم بھی اجتماعی استعفے دیں گے آج ان تمام کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ پپو کے مطابق فہیم صدیقی نے اپنا سامان بھی گھر منتقل کردیا ہے۔کراچی یونین آف جرنلٹس کے صدر فہیم صدیقی کا کہنا ہے کہ میں حالات کاڈٹ کرمقابلہ کروں گا۔جیوانتظامیہ ملازمت سے برطرف کرکےمجھے جھکانہیں سکتی۔ اورنہ ہی میری آواز بندکراسکےگی۔ انکاکہناتھاکہ میں صحافی برادری کیلئے پنی جدوجہدہرحال میں جاری رکھوں گا۔ واضح رہے کہ فہیم صدیقی کا شمار جیونیوزکے بانی ارکان میں سے ہوتا ہے، وہ اکیس سال سے جیونیوز سے منسلک تھے اس دوران انہوں نے بہت نشیب و فراز دیکھے، متعدد بار جیونیوزکی بندش کے دوران جیوانتظامیہ کے حق میں ریلیاں ، مظاہرے اور احتجاج بھی کرتے رہے۔ محرم الحرام میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں انہوں نے اپنے بیٹے کو کھودیا اور خود بھی شدید زخمی ہوئے تھے۔
اکیس سال کا خدمات کا صلہ، فہیم صدیقی کو اچانک نکال دیاگیا۔۔
Facebook Comments
فہیم صدیقی محض اک فرد نہیں بلکہ حریت فکر کے اجالے کا نام ہے جس نے بڑی جدوجہد اور راستبازی اور استقامت سے یہ مقام پایا ہے اور یہ تکریم کمائی ہے – میں اور مجھ جیسے کئی اس فرد کے قدردان ہیں اور اس ابتلاء میں اسکے ساتھ کھڑے ہیں۔۔۔ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ جنگ گروپ جوکبھی آزدیء فکر و اظہار کا پرچارک، اخلاقیات کا پاسدار اور اقدار کا محافظ ہوا کرتا تھا ، اب گزشتہ کئی برسوں سے اس نے اپنے اچھے ماضی سے پیچھا چھڑانے کی حکمت عملی اپنا لی ہے – بانیء ادارہ میرخلیل الرحمان کے بعد بھی کافی عرصہ تک یہ مناسب ڈگر پہ رہا مگر اب میرابرایم کے زمانے میں اس کے طوراطوار یکسر بدل چکے ہیں – ملازمین کے حقوق کی تکمیل جو کبھی فرض عین شمار ہوتا تھا اب لائق غین بھی نہیں رہا- موصوف کا انداز کسی میڈیا ٹائیکون سے زیادہ کسی مافیا کے ڈان کا سا ہو چلا ہے ۔۔۔ خود میرے پاس اپنے ذاتی حوالے سے انکی بدعہدی کی اک تلخ داستان موجود ہے کیونکہ مجھے 2015 میں ایک بڑے چینل میں جانے سے عین وقت پہ روک کے جیو میں جوائن کرنے کی پیشکش کی گئی اور جوائن کرنے کے بعد ایک میڈیا پرسنالیٹی کے خلاف مہم جوئی پہ لگا دیا گیا اور پھر مطلب پورا ہوجانے کے بعد ڈاؤن سائزن گ کی آڑ میں نکال باہر کیا گیا – اس داستان کی تفصیل جلد ایک مضمون کی صورت سامنے لاؤں گا اور میر ابراہیم کی بابت کئی تلخ حقائق گوش گزار کروں گا-پڑھنے والوں سے درخواست ہے کے وہ اس گروپ اور اس کے مالکان کے ‘اعمال صالحہ و اشغال فاسدہ کے بارے میں اپنی متعلقہ معلومات مجھ سے اس ای میل ایڈریس پہ ضرور شیئر کریں [email protected] – سید عارف مصطفٰیٰ