تحریر: امجد جاوید
”بچوں کا ادب ماضی ، حال اور مستقبل“ پر ہونے والی پہلی عالمی ادب اطفال کانفرنس ۲۲۰۲ءجہاں بذات خود ایک خوشگوار حیرت لائی وہاں اتنے بڑے موضوع پر ہونے والی کانفرنس کے لئے دن تھے فقط تین ۔ اس پر حیرت بھرا معمہ بھی تھا ۔وہ ذیلی موضوعات اور عنوانات تھے،جو اتنے اہم اور مفصل گفتگو کے متقاضی تھے کہ میں سوچ میں پڑ گیا، یہ سب کیسے ممکن ہو گا ؟ ان ساری علمی ،تحقیقی اور تجربات سے لبریز گفتگو سے کیسے مستفید ہو پائیں گے ؟ مقالہ نگاروں کی ایک طویل فہرست تھی ۔ کانفرنس میں شرکت کی دعوت سے لے کر اکادمی ادبیات اسلام آباد پہنچ جانے تک یہی تجسس رہا۔
اس پہلی عالمی ادب اطفال کانفرنس میں جو تخلیق کار ، محقق، اور دوسرے نامور نام تھے ، ان کا اجتماع بذات خود ایک بہت بڑا ایونٹ تھا۔ ان سے ملنے اور گفتگو کرنے کا اپنا ہی ایک چارم تھا ۔سو ہر طرح سے بھرپور کانفرنس کا انعقادایک بڑے کارنامے سے کسی طور پر کم نہیں ہے۔میں سمجھتا ہوں اس کا سارا کریڈٹ پاکستان اکادمی ادبیات کے جناب یوسف خشک ، اختر رضا سلیمی اور ڈاکٹر ریاض عادل اوردوسری طرف دائرہ علم و ادب پاکستان کے ڈاکٹر افتخار کھوکھر اوراحمد حاطب صدیقی کو جاتا ہے ۔ یہ انہی کی ذاتی دلچسپی اور کوشش کے باعث ممکن ہو پایا کہ اسلام آباد کی فضاﺅں میں ملک بھر سے ادب اطفال سے متعلق شخصیات مل بیٹھے ۔
اس کانفرنس کو دو انداز میں آ گے بڑھایا گیا ۔ ایک پہلو تحقیق سے متعلق تھا ، جس میں میں بچوں کے ادب میں درپیش مسائل ،تجاویز،بچوں کے رسائل ، بچوں کی تربیت میں ادب کا کردار ، پاکستانی زبانوں میں بچوں کا ادب، بچوں کی دل چسپی کے موضوعات اور نئے امکانات، بچوں کا ادب: ثقافت اور حب الوطنی ، بچوں کے رسائل کا معیار، رجحانات اور امکانات، ڈیجیٹل عہد اور بچوں کا ادب، بچوں کا شعری ادب، بچوں کا نثری ادب، بچوں میں کتب بینی کے فروغ کے لیے ممکنہ اقدامات، بچے اقبال اور جناح کی نظر میں، بچوں کا ادب اکیسویں عہد میں، ادبیات اطفال، تحقیق، تنقید اور بچوں کی نفسیات، ادبیات اطفال اور نصاب سازی، بیرونی ممالک میں بچوں کا ماضی، حال اور مستقبل، بچوں کے ادب کے فروغ میں رسائل کا کردار، بچوں کے عالمی ادب سے تراجم، بچوں کا ادب اور عصر حاضر، جیسے موضوعات پر گفتگو کی گئی اور اس پر عملی تجاویز مرتب کی گئیں ۔ دوسرا پہلو تخلیق کاروں کا تھا ، جس میں کہانی بیان کی گئی ، بچوں کی شاعری پر مبنی مشاعرہ ہوا ۔ایک تیسرا پہلو بھی تھا ، جس میں عرفان صدیقی ، کشور ناہید ، ڈاکٹر انیس احمد ، شعیب صدیقی اور افتخار عارف کی بچپن بیتی بھی سامنے آ ئی ، جس پر بچوں نے خوب مزے کے سوال کئے ۔
ایک اہم بات اس میں یہ ہوئی کہ وفاقی وزیر انجینئرامیر مقام نے اعلان کیا کہ یہ کانفرنس ہر سال منعقد ہوگی اور بچوں کے ادیبوں کو بھی قومی سطح پر ایوارڈ دیے جائیں گے۔
اس کانفرنس کے تمام شرکاءمیں جوش و جذبہ اور امیدیں بہت زیادہ تھیں ،کچھ توقعات اور تھوڑے اندازے تھے ، جو بہر حال سبھی پورے نہیں ہوتے ۔ لیکن وہاں نئے پہلو اور نئے خیالات بھی سامنے آ ئے ۔ چونکہ پہلی کانفرنس تھی اس لئے شرکاءبہت کچھ کہنے اور تبادلہ خیالات کے متمنی تھے ، اس میں بڑی مفید گفتگو سامنے آ ئی ۔تاہم اس کانفرنس کے تناظر میں اگلی کانفرنس کے لئے کچھ تجاویز یہ بھی ہو سکتی ہیں ۔
اگر کانفرنس کے لئے وقت زیادہ دستیاب نہ ہو تو موضوع اور عنوانات کم کر کے ان پر بھر پور اور سیر حاصل گفتگو کی جائے تاکہ ایک موضوع کے کے زیادہ سے زیادہ پہلو واضح ہو جائیں ۔
کوئی بھی مقالہ یا تحقیقی رپورٹ گر پیش کی جائے تو اسے پوری طرح پیش کیا جائے ، اس پر شرکاءسوال کر سکیں اور مقالہ نگار اس کا جواب دیتے ہوئے اپنی تحقیق کو زیادہ موثر بنا سکے ۔
اس میں کوئی شک نہیں تحقیق اپنا اثر رکھتی ہے، تاہم بنیادی شے تخلیق ہے ۔ تخلیق کاروں کی تخلیقات پر جہاں بات ہو وہاں ایسے مباحث بھی ہوں جہاں تخلیق کار اپنے تجربات کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کر سکیں ، دوسری طرف نئے رجحانات اور نئے موضوعات کی عملی صورت کو واضح کیا جائے تاکہ قومی اور ملی مقاصد کا حصول ممکن ہو سکے ۔
چونکہ اس عالمی کانفرنس میں بڑی مفید مباحث اور گفتگو ہو ئی ، اسے پوری طرح شائع کرنا چاہئے ۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اس کانفرنس کے ہر سیشن کے نکات کو ضرور شائع کیا جائے ۔
ایک کانفرنس سے دوسری کانفرنس تک کے درمیان میںخاموشی کا خلا نہیں ہو نا چاہئے بلکہ پاکستان اکادمی ا دبیات کو راہنمائی کا فریضہ بھی سرانجام دینا چاہئے ۔ یہ راہنمائی قومی اور ملی مقاصد کے حصول ، نئے موضوعات ، بچوں کی نفسیات بارے جدید تحقیقات سے روشنائی اورتخلیق کاروں سے روابط کا اہتمام کیا جائے تاکہ انہیں درپیش راہنمائی میسر کی جاتی رہے ۔
پہلی عالمی ادب ِ اطفال کانفرنس ۲۲۰۲ءوہ بنیاد ہے ، جس پر میں سمجھتا ہوں بچوں کے ادب کی تعمیر نو ہو گی ۔ نئے افق ہمارے سامنے ہوں گے اور تخلیق کاروں کے ساتھ ساتھ تحقیق کار بھی بھرپور توجہ سے اپنے اپنے کام کو آ گے بڑھائیں گے ۔(امجد جاوید)۔۔