ab koi doosra farooq qaiser nahi

دوہزار بیس ایک ڈراؤنا سال

تحریر: کشور ناہید۔۔

کرسمس کادن، اتنی اداسی،اتنی سردی اور اتنی غمگین خبر۔ اطلاع تھی کہ شمس الرحمان فاروقی، الہ آباد میں، موت کی آواز سنتے ہی چلے گئے۔ ذرا بھی کسی کو خبر نہیں ہونے دی۔ یہ کیسے دن ہیںایک دن اشفاق سلیم مرزا گئے،دوسرے دن قاضی جاوید،پھر عبدالحمید چھاپرا اور ہمارے بزرگ حسن مثنیٰ صاحب نے بھی اجل پہ لبیک کہا۔ ان تمام احباب کے ساتھ ہمارے عزیز دوست، صحافی عرفان(اختر حسین رائے پوری کے بیٹے) لندن میں کینسر کا شکار ہوگئے۔ ویسے تو یہ بہت منحوس سال رہا کہ ساری دنیا میں لاکھوں لوگ کورونا کھاگیا۔ ہجرت کے مارے بے بس اور لاچار لوگ روہنگیا کے لوگوں کی طرح، بنگلہ دیش نے نامعلوم جزیرے پہ بھیج دیے۔ کشمیر کی سردی میں زعفران کے پھول چنتی بزرگ خواتین اور سارے مشرقی پنجاب میں پولیس کے ڈنڈوں کی مار کھاتے، بھوکے اورہڑتالی کسان، مودی جی کی لمبی ہوتی داڑھی دیکھ کر بھوک بھوک چلارہے ہیں۔ کوویڈ کی زہر ناگ بڑھتی لہر نے سارے ائیرپورٹ بند اور سارے میخانےاداس کردیے ہیں۔ وہ سارے ساحل جہاں بچے بڑے کرسمس کی چھٹیاں گزارنے کا لطف لیتے تھے، وہاں سارے بڑے چھوٹے ایک دوسرے کو گیت سنارہے ہیں۔ گزشتہ دنوں پاکستان میں قائد اعظم کا یومِ پیدائش تھا۔ جس کے منہ میں اور عقل میں جو آتا ہے، وہ بے دھڑک بول رہے ہیں۔ مجھے زیارت میں آج سے چالیس سال پہلے، وہ بابا یاد آرہا ہے، جو مجھے قائد اعظم کے آخری سفر کی باتیں سناتا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا جب اس نے کہا کہ قائد اعظم تو اتنے کمزور ہوگئے تھے کہ انہیں چادر میں لپیٹ کر گاڑی میں بمشکل بٹھایا گیاتھا۔ وہ اور میں دونوں روتے ہوئے یاد کررہے تھے کہ جو گاڑی میرے اور تم سب کے قائد کو لینے آئی تھی، اس کا پیڑول ختم ہوگیا تھا۔ چار گھنٹے تک فاطمہ جناح، قائد کے چہرے سے مکھیاں اڑاتی رہی تھیں۔ یہ وہی قائد تھا جس کو زندگی میں انگریزی میں بھی تقریر سننے کے لئے، خاموش کھڑے رہتے اور جذباتی انداز میں تالیاں بجاتے۔ ان کے جنازے میں سارا کراچی امڈ آیاتھا۔ اور سب کو یاد آرہاتھا کہ قائد نے کہا تھا ’’میری جیب میں تو کھوٹے سکے ہیں‘‘۔ یہ بھی یاد آیا کہ ممدوٹ جیسے جاگیردار الیکشن لڑنے کے لئے قائد سے پیسے مانگنے آئے تھے۔ نظر اٹھاکر دیکھتی ہوں تو اب تو کھوٹے سکے بھی نظر نہیں آرہے ہیں۔ مرنے والے شمس الرحمان فاروقی کا ناول ’’ کئی چاند تھے سر آسماں‘‘۔ حضرت داغ دہلوی کے خانوادے اور انگریزوں کے ظلم کی داستان کے ساتھ، اتنی خوبصورت نثر، کم ہی پڑھنے کو ملتی ہے۔ اسکا انگریزی ترجمہ بھی فاروقی صاحب نے خود کیا تھا۔ اور کیا خوب کیاتھا۔ اسی زمانے میں ایلیٹ کا ترجمہ جو ہزار صفحات پر مشتمل ہے، مرزا صاحب نے کیا تھا۔ ستم تویہ ہے کہ جس دن وہ ترجمہ کتابی شکل میں آیا، وہ دیکھنے سے پہلے چلے گئے۔ وہ دنیا بھر کے تاریخ، فلسفے اور کلاسیک کاترجمہ کمال بے ساختگی کے ساتھ کرتے تھے۔کئی دفعہ میں نے کہا اتنا تیزی میں کام مت کرو، کچھ دیر اپنے آپ کو بھی وقت دو،یہی بات مجھے میرے سارے دوست کہتے ہیں۔ یہیں مجھے مسعود مفتی یاد آگئے۔ انہوں نے بس ڈرائیور کو کہا ’’ بس دس منٹ رک جائو‘‘ یہ دس منٹ موت کے فرشتے نے دبوچ لئے۔ بالکل دودن دیے قاضی جاوید کو موت نے، پورا خاندان سکتے میں تھا کہ دیکھا جنازہ جارہا ہے۔ جب فاروقی صاحب کی بیگم کی وفات ہوئی، میں نے فون کیا تو بلک بلک کے رونے لگے کہ انکی خدمت انکی بیگم نے بڑی دلداری سے کی تھی۔ بیگم کو انکے دل کا دھڑکا لگا ہوتا تھا۔ مگر وہ خود پہلے چلی گئیں۔

اکیس دسمبر کو سیاروں کے ملاپ کا دن تھا،زحل مشتری سے بھی زیادہ چاندوں والا سیارہ بن گیا ہے۔ شہابیوں کی برسات اور سیاروں کا ملاپ، غروب آفتاب کے فوراً بعد نظر آیا۔نجوم پہ بات کرنے والوں نے اِس موضوع پر بہت بات نہیں کی ہے ۔ خدا خدا کرکے انڈین جھوٹ کے سردار کو برطانوی عدالت نے بھی، پاکستان کے خلاف زہر افشانی کی سزا دی ہے۔ کشمیر میں بنیادی انتخابات میں زیادہ مسلمان اور خاص طور پر خواتین کامیاب ہوئی ہیں۔ جس دن سے وزیراعظم نے صاف گوئی سے کہا کہ ’’ہمیں سکھائے بغیر حکومت دیدی گئی۔ 22سال پارٹی کی تنظیم، تہذیب، پاکستان کے مسائل کا ادراک عام محلوں میں جاکرکیا ہوتا تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ بی بی مریم نے اپنی ماں کے الیکشن کےدنوں میں کچھ کچھ حقیقتیں دیکھیں اور محسوس کیں(شاید ابھی یاد ہوں) ہمارے دوست شفقت محمود سے ایک محفل میں ملاقات ہوئی تو فوراً مجھے سمجھانے لگے انصاف پارٹی میں بہت کام ہورہا ہے‘‘ آج میں خود شفقت سے پوچھتی ہوں کہ تمہارے عہد میں نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے لئے عدالتوں میں پہنچ گئے ہیں۔ کاش یہ 2020کا ڈرائونا ماحول دفن ہو جائے۔(بشکریہ جنگ)

hubbul patni | Imran Junior
hubbul patni | Imran Junior
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں