رپورٹ : فہد شہزادہ
گزشتہ سال 2018کو ملک کے لئے تبدیلی اور خوشحالی کا سال قرار دیا جاتا ہے وہاں شعبہ ابلاغ عامہ سے تعلق رکھنے والے افراد پر بھاری گزرا، گزشتہ سال خیبرپختونخوا میں پانچ صحافیوں کوقتل کیا گیا جبکہ پشاور میں مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ193 سے زائد افراد کو نوکریوں سے فارغ کیا گیا ، ان میں52 سے زائد افراد کا تعلق رپورٹنگ اور سب ایڈیٹنگ سے تھا اسی طرح بیشتر اداروں میں کارکنوں کی تنخوا ہوں اور مراعات سے کٹوتی کی گئی ، 2019 کا پہلا ہفتہ بھی شعبہ صحافت و ابلاغ عامہ کے کارکنوں کےلئے پر امید ثابت نہ ہوا،گزشتہ سال شعبہ ابلاغ عامہ سے تعلق رکھنے والوں کےلئے مشکل ترین گزرا ، خیبر پختونخوا میں فرائض منصبی کے دوران پانچ صحافیوں کو قتل کیا گیا ،11 جون کو ہری پور میں نجی ٹی وی کے رپورٹر بخشش الہیٰٰ کو جرائم پیشہ افراد کے خلاف خبر دینے کی پاداش میں قتل کیا گیا ،اس طرح 11 اکتوبر کو صوابی میں نامعلوم افراد کی جانب سے ہارون خان کو گھر کے قریب نشانہ بنایا گیا ، اکتوبر کے مہینے میں دو صحافیوں کو قتل کیا گیا جن میں سہیل خان کو 16 اکتوبر کو ہری پور اور 30 اکتوبر کو چارسدہ میں احسان اللہ شیرپاو کو موت کے گھاٹ اتارا گیا،سال کے آخری مہینے میں نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے صحافی نورالحسن کو کیمرہ مین کے ہمراہ پشاو رکے رنگ روڈ پر ٹارگٹ کیا گیا حملے میں نورالحسن جانبر نہ ہوسکے ، قتل اور ٹارگٹ کے ساتھ ساتھ شعبہ صحافت و ابلاغ میں صحافیوں کا معاشی قتل بھی جاری رہا ، پشاور میں مختلف اخبارات اور چینلز کے193 ملازمین کو نوکریوں سے جبری برخاست کیا گیا جن میں 52 افرا دکا تعلق رپورٹنگ اور سب ایڈیٹنگ سے شعبے سے تھا ، سلسلہ رکا نہیں بیشتر میڈیا ہاوسز میں رپورٹرز اور سب ایڈیٹرز کی ماہانہ تنخواہوں میں کافی حد تک کٹوتی کی گئی، رپورٹنگ، کیمرہ ورک ، اسائمنٹ اور فوٹوگرافی سمیت دیگر فرائض سرانجام دینے والے ملازمین سے فیول، موبائل چارجز اور دیگر مراعات واپس لی گئیں،بیشتر بڑے گروپس کے ملازمین کو تاحال کئی ماہ کی تنخواہوں کی ادائیگی بھی تاحال نہیں کی گئی ، گزشتہ سال سے جاری ملک بھرکے میڈیا ہاوسز میں ایک کہرام کی کیفیت ہے، وہ صحافی ،اور کارکن جو طویل عرصہ سے ان اداروں کے ساتھ وابستہ تھے وہ بے روزگار کر دیئے گئے ہیں، گزشتہ سال پاکستانی میڈیا تاریخ کے بدترین دورسے گزرا،سینکڑوں صحافیوں کو بے روز گار کردیاگیا اور بڑے بڑے میڈیاہاوسز ڈاون سائزنگ کی زد میں ہیں،وہ اخبار جن کے بارے میں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتاتھاکہ وہ بحران کی زدمیں آئیں گے یابند کردیئے جائیں گے اپنی بقاءکی جنگ لڑتے دکھائی دے رہے ہیں،ملک بھر میں صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پی ایف یو جے کی کال پرملک بھر میں صحافیوں نے احتجاجی مظاہرے کئے اور کارکنوں کے معاشی قتل عام پراحتجاج کیا، پشاور سمیت ملک بھر میں صحافتی شعبے سے وابستہ افراد نئے سال کی آمد پر معاشی استحکام کےلئے پر امید تھے کہ اس دوران نئے سال کے پہلے ہفتے میں روزنامہ ایکسپریس سے پانچ سب ایڈیٹرز ، کی بنچ آپریٹر اور پیج میکر سمیت 13 افراد کو نوکری سے فارغ کیا گیا ، اسی طرح دوسرے ہفتے میں جیو نیوز کے، سنئر اسائمنٹ اور رپورٹرز سمیت 7 کارکنوں کو جبری برخاست کیاگیا جس پر بیوروچیف جیوپشاور نے بھی استعفا دے دیا، اعداد شمار کے مطابق پشاور میں جنگ میڈیا گروپ سے8 رپورٹر، سب ایڈیٹر ز سمیت مجموعی طور پر 70 کارکنوں ،کیپٹل نیوز سے2 رپورٹرز، 2 کیمرہ مین سمیت6 ،دنیا نیوز سے3 کیمرہ مین سمیت 13،آج نیوز سے 2 رپورٹرز،اخبار خیبر سے 9 سب ایڈیٹرز اور 7 رپورٹر سمیت42 کارکنوں ایکسپریس میڈیا گروپ میں روزنامہ ایکسپریس میں5 رپورٹرز ،5 سب ایڈیٹرز اور 2 فوٹو گرافر ، ایکسپریس ٹریبیون سے 6 رپورٹرز ،تین سب ایڈیٹرزاور ایک فوٹو گرافر سمیت 69 کارکنوں کو نوکری سے فارغ کیا گیا ہے اسی طرح 24 نیوز سے بھی 2رپورٹر سمیت کارکنوں کو گھر بھیجا گیا ۔جیونیوز سے گزشتہ ہفتے 7 کارکن فارغ کئے گئے، ابھی چند گھنٹے قبل خبر آئی ہے کہ سماء ٹی وی اور سماء ڈیجٹل سے 2 رپورٹرز اور 2 کیمرہ مینوں کو جبری برخاست کیا گیا اگر سلسلہ ایسا ہی چلتا رہا تو بیشتر صحافی صحافت چھوڑ کر دیگر شعبے اپنا لینگے اور پشاور سیمت صوبے کی دیگر جامعات میں شبعہ ابلاغ عامہ کے ڈیپارنمنٹ میں کوئی پڑھنے نہیں جائے گا ۔(فہد شہزادہ)