2 ustaad aik sath

2 استاد، ایک ساتھ۔۔

تحریر: علی عمران جونیئر۔۔

کراچی میں کرائم رپورٹر ایسوسی ایشن کے انتخابات میں جرنلسٹ پینل اور یونائیٹڈ پینل میں کانٹے کےمقابلے کی تیاری جاری ہے۔12دسمبر کو کرائم رپورٹرز حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ کراچی پریس کلب میں گہما گہمی اور میلے کا سماں ہے اور دونوں پینلز کی جانب سی انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں جبکہ گزشتہ الیکشن میں یونائٹڈ پینل نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔۔ اس بار یونائیٹڈ پینل کو ٹکر دینے کے جرنلسٹ پینل بھی سامنے آیا ہے جس میں رائو عمران-صدرقومی اخبار،آصف سعود -نائب صدرامت اخبار ، راجا طارق۔سیکٹری۔ نیوز ون، کاشف ہاشمی۔جوائنٹ سیکٹری۔92 نیوز، اظفر عباسی۔ خازن اخبار نو،رجب علی۔ جبکہ جرنلسٹ پینل کی گورننگ باڈی میں ندیم احمد، ریحان چشتی، عاطف رضا، فیضان جلیس، وحید جیلانی اور ساجد رؤف شامل  ہیں۔۔ دوسری طرف  یونائیٹڈ پینل میں صدر سمیر قریشی میٹرو ٹی وی،نائب صدر ذیشان شاہ جیو نیوز، سیکریٹری طٰہ عبیدی فری لانس، جوائنٹ سیکریٹری سہیل شبیر ابتک نیوز،خزانچی سالک شاہ سماء ٹی وی اورممبر گورننگ باڈی عامر مجید، سلمان لودھی، راحیل سلمان، مطلوب بیگ، فیاض یونس، بلال خان اور ثمر عباس24 نیوز شامل ہیں۔

یہ سب کچھ توآپ لوگ پہلے سے جانتے ہی ہوں گے۔۔ آج آپ لوگوں سے ذرا کچھ ہٹ کر بات کرتے ہیں۔۔ الیکشن ہوتے ہیں ، ہوتے رہیں  گے  اور ہوتے تھے۔۔ اس بار سی آر اے کا الیکشن پہلی بار منفرد نوعیت کا ہورہا ہے۔۔ جس میں دونوں گروپس میں بہت تگڑے امیدوار ہیں ، دونوں گروپوں میں اچھے دوست،ساتھی اور محبت کرنے والے لوگ موجود ہیں۔۔لیکن تذکرہ کریں گے دونوں گروپس کی جانب سے صدارت کے لئے الیکشن لڑنے والے امیدواروں کا۔۔

جرنلسٹ پینل کی جانب سے راؤ عمران کھڑے ہیں جنہیں میں نے جب سے صحافت کی دنیا میں قدم رکھا ہے ہمیشہ قومی اخبار کے ساتھ ہی پایا۔۔ راؤ عمران سے متعلق ایک انکشاف کرتا چلوں کہ جب میں نے قومی اخبار میگزین کے لئے انیس سو بانوے میں فری لانس لکھنا شروع کیا تھا۔۔ اخبار جہاں سائز کا یہ میگزین اس وقت پانچ روپے کا ہوتا تھا اور اخبار جہاں نوروپے کا تھا، دونوں ہفت روزہ تھے۔۔ سستا ہونے کی وجہ سے قومی اخبار میگزین زیادہ پڑھا جاتا تھا۔(کراچی لیول کی بات کررہا ہوں) ویسے تو اخبار جہاں کی سرکولیشن کا کوئی توڑ نہیں تھا ان دنوں۔۔ خالد فرشوری صاحب قومی میگزین کے ایڈیٹر ہوا کرتے تھے۔۔ میں عالمی حالات حاضرہ کے حوالے سے ابتدائی چار صفحات لکھتا تھا، جس کا مجھے ایک ہزار روپے فی ہفتہ ملتا تھا، اگر مہینے میں پانچ ہفتے آگئے تو پانچ ہزار ورنہ چار ہزار تو پکے تھے۔۔ پھر جب اچانک قومی اخبار میگزین بند کرنے کا فیصلہ کیاگیا تو راؤ عمران صاحب مجھے ایک اخبار کے دفتر لے گئے اور انورسن رائے صاحب سے ملوایا،یہ پبلک اخبار کا دفتر تھا اور شیخ سلطان ٹرسٹ بلڈنگ نزد پی آئی ڈی سی تھا۔۔ راؤ صاحب نے اپنی گارنٹی لی اور ساتھ ہی کہا کہ آپ کو کام والا بندہ دے رہا ہوں ،آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔۔ پھر پبلک کے ساتھ دن رات ایک کردیئے ، جہاں نذیر لغاری صاحب، فاضل جمیلی صاحب کے ساتھ ساتھ انورسن رائے صاحب نے بالکل فری ہینڈ دیا اور کھل کر کھیلنے کا موقع دیا، جہاں بہت کچھ سیکھا۔۔مجھے یاد پڑتا ہے وہاں ڈیسک پر جتنے لوگ ہوتے تھے آج میرے علاوہ تقریبا سب ہی اچھی جگہوں پر سیٹ ہیں۔۔ ان میں سجاد عباسی صاحب ایڈیٹر امت راولپنڈی۔۔سراج احمد صاحب کنٹرولر اے آر وائی۔۔عامر شیخ صاحب ایگزیکٹیو پرڈیوسراے آر وائی، احسان کوہاٹی المعروف سیلانی۔۔جواد محمود ایگزیکٹیو پرڈیوسر ڈان نیوز۔۔قمر الزماں سینئر پرڈیوسر ڈان نیوز۔۔ سمیت کئی ایسے نام تھے جو اب دنیائے صحافت میں روشن ستارہ بن کر جگمگا رہے ہیں۔۔ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ راؤ عمران صاحب وہ شخصیت ہیں جنہوں نے مجھے عملی صحافت کے میدان میں دھکیلا۔۔

اب ذکر یونائیٹڈ پینل کے صدارتی امیدوار سمیر قریشی کا۔۔ جنہیں فیلڈ میں سب استاد کہتے ہیں۔۔ راؤ عمران صاحب کو بھی میں کبھی نام سے نہیں بلاتا، ہمیشہ استاد ہی کہہ کر مخاطب کیا ہے۔۔ اس طرح یہ دونوں ہی میرے نزدیک استاد ہیں۔۔ میری یادداشت جہاں تک ساتھ دیتی ہے تو سمیر قریشی شاید راؤ عمران سے جونیئر ہے  اور وہ اسی طرح عزت بھی کرتے ہیں۔۔ سمیر قریشی صاحب اور میں کافی عرصہ پہلے ایک اخبار میں ساتھ کام کرتے تھے، وہیں اچانک ہمارے ایک دوست (وہ بھی اسی اخبار میں ملازم تھے) کو دورہ پڑا کہ ماس کوم میں ماسٹرز کرتے ہیں۔۔ اردو یونیورسٹی میں شام کا پہلا بیج اسٹارٹ ہورہا تھا۔۔ وہ فارم وغیرہ لے آئے۔۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ فیس کے پیسے نہیں تھے۔۔ تین یا چار ہزار روپے فیس تھی۔۔تنخواہ آنے میں ہفتہ دس دن باقی تھے۔۔ کل آخری تاریخ تھی ،ٹینشن سوار تھی کہ فیس کیسے بھروں، ادھار کبھی زندگی میں کسی سے مانگا نہیں تھا۔۔ اچانک سمیر استاد ڈیوٹی پر پہنچے۔۔ سلام دعا کے بعد یہ میرے کیبن سے باہر نکل جاتے تھے۔۔ لیکن اتفاق دیکھئے اس بار انہوں نے باہر نکلنے کے بجائے پوچھ لیا، استاد کیوں پریشان ہو؟ میں نے کہا، کوئی ایسی بات نہیں، استاد تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی۔۔ سمیر استاد اڑ گئے ،بولے نہیں استاد کوئی ٹینشن ضرور ہے بتاؤ کیا مسئلہ ہے؟  دو تین بار اصرار کیا تو سمیر استاد کو پریشانی کی وجہ بتائی ، انہوں نے حوصلہ دیا اور کہا یہ بھی کوئی مسئلہ ہے۔۔پھر ہنستے ہوئے میرے کیبن سے باہر نکل گئے۔۔ میں کام میں لگ گیا۔۔ کچھ دیر بعد سمیراستاد نے پھر انٹری ماری اور چارہزار یا شاید پانچ ہزار میری ٹیبل پر رکھے اور کہا ۔۔لو استاد کل لازمی فیس بھر دینا۔۔  میں کبھی پیسے دیکھوں کبھی سمیراستاد کو۔۔کئی بار کہا، رہنے دو استاد اگلے سال پڑھ لوں گا۔۔ وہ پیسے میری ٹیبل پر چھوڑ کر اپنی ٹیبل پر چلے گئے۔۔ پھر جب سیلری اکاؤنٹ میں آئی تو سب سے پہلے سمیر استاد کے پیسے الگ کئے اور جیسے ہی وہ ڈیوٹی پر آئے ،میرے کیبن میں داخل ہوئے میں نے سمیر استاد کے ہاتھ میں پیسے رکھ دیئے۔۔وہ باقاعدہ ناراض ہوگئے۔۔کہنے لگے، استاد تم کو جو پیسے دیئے وہ تم نے عیاشی میں لگائے نہیں، پڑھائی میں لگائے تو پھر میرے پیسے کسی اچھے کام میں لگ گئے۔۔ واپس جیب میں رکھ لو۔۔ اور آئندہ کبھی پیسے واپس کرنے والی بات بھی نہ کرنا۔۔

تو کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ایک طرف راؤ عمران صاحب ہیں جنہوں نے مجھے صحافت کے میدان میں دھکیلا۔۔ دوسری طرف سمیر قریشی صاحب ہیں جنہوں نے میرے ماسٹرز میں اہم کردار ادا کیا، ورنہ شاید میں کبھی ماس کوم نہ کرتا۔۔ یہ دونوں واجب الاحترام شخصیات کرائم رپورٹرز ایسوسی ایشن میں صدارت کے لئے آمنے سامنے ہیں۔۔ دونوں ٹھنڈے مزاج کے، منکسرالمزاج، بڑوں کا ادب  کرنے والے اور چھوٹوں پر (جونیئرز) شفقت کرنے والے لوگ ہیں۔۔ مجھے امید ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی جیتا ، وہ دیگر ساتھیوں اور دوستوں کے لئے دن رات ایک کردے گا۔۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ میں کسے سپورٹ کروں ؟؟ میرے لئے تو دونوں ہی اہم ہیں۔۔ میرے لئے دونوں ہی استاد ہیں۔۔ میں دونوں کے لئے صرف ایک جملہ ہی کہوں گا۔۔ تم جیتو یا ہارو،ہمیں تم سے پیار ہے۔۔۔(علی عمران جونیئر)۔۔

hubbul patni | Imran Junior
hubbul patni | Imran Junior

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں