2 saathi corona se chal base

2 ساتھی کورونا سے چل بسے،صحافی کی کورونا کہانی۔۔

تحریر: فیض اللہ خان۔۔

کہانی کا آغاز مئی کی اکتیس تاریخ سے ہوا جب مجھے کھانسی شروع ہوئی ، اسکے دو دن بعد مجھے جسم میں درد اور ہلکار بخار محسوس ہوا نقاہت یہاں تک پہنچ گئی کہ میں بستر پہ پڑا رہا اگلے دو تین دن میں درد بخار اور کھانسی بتدریج کم ترین سطح پہ چلے گئے لیکن ذائقہ اور سونگھنے کی حس  مکمل طور پہ ختم ہوگئی تب تک میں گھر والوں کیساتھ ہی رہا میرا فلسفہ یہ تھا کہ اکتیس مئی سے علامات شروع ہونے کا مطلب ہے کہ مجھے پچیس مئی سے یہ مرض لاحق ہوچکا تھا پیش نظر رہے کہ میں نے کرونا کے آغاز  سے اب تک سخت احتیاط کی ہے کہ جیسا کہ ماسک گلوز سینٹائزر رکھنا گھر آکر مخصوص جگہ پہ کپڑے بدلنا اور نہانا وغیرہ لیکن اس سب کے باوجود بات یہاں تک پہنچ گئی ان کیفیات کیساتھ میں دفتر بھی گیا اس دوران احتیاط ہمیشہ کی طرح برقرار رکھی بلکہ بتا بھی دیا کہ مجھے یہ علامات ہیں یہ اور بات ہے کہ چھٹی نہ ملی بہرحال اس کیفیت میں تقریباً چودہ پندرہ روز گزارنے کے بعد فیصل خان کیساتھ جاکر سندھ حکومت کے بتائے گئے صحت مرکز پہ کرونا کا ٹیسٹ کرالیا چار پانچ روز بعد پیغام ملا کہ معاملہ منفی ہے ، خدا کا شکر ادا کرکے دوبارہ انہی کاموں میں لگ گیا لگ بھگ دس روز پہلے ہمارے سائٹ ایریا میں واقع نیوز روم میں اسی افراد کو کرونا ہوگیا انہی میں محترم عمران لاری اور عبد الغنی بھائی بھی تھے جو اس مرض کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گئے ، اللہ انکی کامل مغفرت فرمائیں ہماری ایمرجنسی ڈیوٹی یہاں لگ گئی شام تین تا رات بارہ یہیں کام کر رہے ہیں دو دن پہلے دفتر میں کرونا کے اینٹی باڈیز ٹیسٹ ہورہے تھے آج فہرست لگی تو میں اور فاروق سمیع ” ری ایکیٹو ” یا پازیٹو نکلے مطلب طبعیت جو خراب رہی دراصل وہ کرونا تھا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کرونا تھا تو تب نتیجہ منفی کیسے آیا ؟ اسکا ایک جواب یہ ملا کہ چونکہ ٹیسٹ تاخیر سے کرایا لہذا جب مرض ختم ہوچکا تھا تو اسی مناسبت سے منفی نتیجہ نکلا اور یہ اینٹی باڈیز ہے تو اس نے بتایا کہ آنے والا کرونا تھا مگر گزر کے چلا گیا اب یہ کرونا تھا یا نہیں میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن یہ طے ہے کہ سرکاری تجربہ گاہ میں ٹیسٹ منفی بعد میں نجی سے مثبت رہا ۔

اسکے بعد اہلیہ کی طبیعت بھی انہی علامات کیساتھ شدید خراب ہوئی بلکہ انہیں سانس کا بھی بہت مسئلہ ہے تو کافی پریشانی رہی اب انکی طبعیت پہلے سے قدرے بہتر ہے لیکن مکمل ٹھیک نہیں۔۔ابتدائی چند روز خوف میں گزرے اسکے بعد میں نے خدا کے فضل سے اسے ایک طرف پھینکا یہاں تک کہ سوشل میڈیا پہ یا دوستوں کو بھی نہیں بتایا سوائے ان چند کے جو رابطے میں تھے سوچ لیا تھا کہ اگر کرونا ہے بھی تو ہمت سے مقابلہ کرنا ہے اور موت ایسے لکھی ہے تو ہم کر بھی کیا سکتے ہیں ؟ کہانی لکھنے کا مقصد آپ سب کو حوصلہ دلانا ہے خوف سے نکالنا ہے اگر یہ کرونا تھا تو بھی لگتا ہے کہ بہت طاقتور نہیں تھا اندازہ یہ ہے کہ ہاتھ کہیں ایسی جگہ پہ پڑا جس سے وائرس ناک وغیرہ کے ذریعے منتقل ہوا ہوگا  کیونکہ ملنے ملانے میں تو احتیاط ہی رہی ممکن ہے کہ کرونا ہو ہی نہیں بہرحال علامات کیفیت اور دو مختلف ٹیسٹوں کا احوال لکھ دیا ہے اور ہاں اس دوران میں نے کوئی قرنطینہ اختیار نہیں کیا سب کچھ معمول کے مطابق چلتا رہا ۔ اسکا یہ مطلب نہیں کہ آپ احتیاط نہ کریں ڈاکٹرز کی بتائی ہدایات پہ ضرور عمل کریں میں خود بھی کر رہا ہوں ماسک کے بغیر نہیں نکلتا سینٹائزر ساتھ رکھتا ہوں۔۔اللہ پاک تمام بیماروں کو شفاء اور مرحومین کی مغفرت فرمائیں۔آمین۔۔( فیض اللہ خان)۔۔

(فیض اللہ خان کراچی میں اے آر وائی نیوزسے منسلک اور کافی باخبر رپورٹرز میں شمار ہوتے ہیں،یہ تحریر ان کی فیس بک ٹائم لائن سے لی گئی ہے، جس کے مندرجات سے عمران جونیئر اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں