سینئر صحافی، کالم نویس اور تجزیہ کار ایاز امیر کا کہنا ہے کہ ہندوستانی حملوں کا سامنا تو ہو چکا تھا اور ہندوستانی انکار کے باوجود دنیا پر یہ واضح ہو گیا تھا کہ جن فرانسیسی لڑاکا طیاروں پر بڑا ناز تھا اُن کی سبکی کے ثبوت سامنے آ چکے ہیں۔ لیکن پھر بھی سوچ رہے تھے کہ ہمارا مکمل جواب کب آئے گا۔ 10مئی کی صبح کو معلوم ہو گیا کہ حملہ ہوا اور خوب ہوا۔دنیانیوزمیں اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ دیہات میں ہم کیا کہتے ہیں کہ چماٹ کسی کو لگائیں آواز تو آئے‘ نہیں تو اُس چماٹ کا مزہ کیا۔ پوری مشرقی سرحد کے جتنے جنگی ٹھکانے تھے وہ ہمارے ہوائی حملے کی زد میں آئے۔ بیشتر ہندوستانی جنگ تو اُن کے ٹی وی چینلوں پر لڑی جا رہی تھی لیکن اس حملے کے بعد اُن چینلوں میں وہ دم نہ رہا‘ وہ جھاگ بھی بیٹھ گئی۔ غصہ تو تھا لیکن دانتوںکو پیسنے تک رہ گیا۔ بڑا چرچا تھا اُن کے ایئر ڈیفنس کا کہ روسی ساخت کے ایس 400 نظام نصب کر دیے گئے ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے کوئی حملہ آور جہاز بچ نہیں سکے گا۔ یہ طیارہ شکن نظام اتنا ہی کارگر ثابت ہوتا تو ہمارے کئی جہاز وہیں گر کر تباہ ہو جاتے۔ اور ایسا ہوتا تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستانی بغلیں کیسی بجتیں۔ لیکن بھرپور حملہ ہوا اور ہمارے تمام کے تمام جہاز بحفاظت واپس آگئے۔ سچ پوچھیے تو مزہ وہ آیا جو سکاٹ لینڈ کی پرانی سے پرانی حفظانِ صحت سے متعلق حفاظتی دوا مہیا نہ کر سکے۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ ۔۔ ہمارے ٹی وی چینلوں پر بندوق بازوں کی کمی نہیں لیکن ہندوستان کے ٹی وی چینلوں کے توپچیوں سے ان کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اچھے خاصے بھلے مانس اور ذہین لوگ ٹی وی سکرینوں پر جلوہ افروز ہوتے ہیں اور ذکر پاکستان کا چھڑے تو ہوش و حواس اور عقل کھو بیٹھتے ہیں۔ اور ایسی ایسی لایعنی گفتگو فرمانے لگتے ہیں کہ سننے والا حیران رہ جائے۔ کیسی کیسی خبریں ان چار دنوں میں اڑائی گئیں۔ ایک ٹی وی چینل نے کہا اسلام آباد تباہ ہو گیا ہے‘ ایک نے کہا کہ کراچی کی آبادیوں میں آگ لگ گئی ہے۔ یہاں تک بھی کچھ لوگ گئے کہ جنرل عاصم منیر کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے ۔ بے وزنی کام تو یہاں بھی ہوتا ہے لیکن اس انتہا تک ہمارا بڑے سے بڑا مجاہد نہیں پہنچ پاتا۔