ہر اینکر صحافی کیوں نہیں ہوتا؟

تحریر: شمعون عرشمان۔۔

پاکستان میں اکثر لوگ اینکر پرسن اور صحافی کو ایک ہی سمجھ بیٹھتے ہیں۔ لیکن کیا واقعی ہر اینکر صحافی ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب “نہیں” ہے—اور اس “نہیں” کے پیچھے کئی گہرے اور سچ پر مبنی دلائل موجود ہیں۔

:اینکر اور صحافی میں بنیادی فرق

صحافی وہ ہوتا ہے جو خبر تلاش کرتا ہے، تحقیق کرتا ہے، گراؤنڈ پر جاتا ہے، سوال اٹھاتا ہے، اور حقائق کو عوام کے سامنے رکھتا ہے۔

جبکہ اینکر پرسن عموماً کسی ٹی وی چینل کا نمائندہ چہرہ ہوتا ہے، جو اسٹوڈیو میں بیٹھ کر خبروں کی میزبانی کرتا ہے، پینل بحث کرواتا ہے یا کسی موضوع پر تجزیہ پیش کرتا ہے۔

مختصر فرق یہ ہے:

صحافی خبر بناتا ہے، اینکر خبر سناتا ہے۔

 صحافت کا پس منظر، اینکر کی تربیت میں نہیں ہوتا

زیادہ تر اینکرز کی پیشہ ورانہ تربیت صرف میڈیا پریزنٹیشن، آواز، اعتماد اور کیمرا ہینڈلنگ پر ہوتی ہے۔ وہ میدانِ عمل میں جائے بغیر خبروں پر بولتے ہیں، لیکن خبروں کے پیچھے کا پس منظر، تحقیق یا حقیقی کہانی انہیں نہیں معلوم ہوتی۔

جبکہ صحافی کے لیے لازمی ہے کہ وہ:

رپورٹنگ کا تجربہ رکھتا ہو

خبر کے ماخذ کی تصدیق جانتا ہو

زمینی حقیقت کو سمجھتا ہو

اور سب سے بڑھ کر، سچ کے لیے خطرہ مول لے سکتا ہو

 ہر مشہور چہرہ تحقیقاتی دماغ نہیں رکھتا

اینکر بننے کے لیے خوبصورت چہرہ، فصیح زبان، اور کیمرہ کانفیڈنس کافی سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن صحافی بننے کے لیے صرف یہ صفات نہیں بلکہ کردار، سچائی، مشاہدہ، مشقت اور ذمہ داری درکار ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے، کچھ اینکرز صرف ٹی وی پر بیٹھ کر “سنسی خیز ڈرامے” پیش کرتے ہیں، جن میں تحقیق کم اور ریٹنگ زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔

 معلومات اور فہم میں فرق

بعض اینکرز کو اسکرین پر بیٹھنے کے لیے محض ایک ٹیم تیار کرتی ہے جو انہیں “اسکرپٹ” دیتی ہے، “سوال” پکڑاتی ہے، اور بریکنگ نیوز کان میں سناتی ہے۔ جبکہ ایک صحافی کو یہ سب کچھ خود سوچنا، ڈھونڈنا اور ثابت کرنا پڑتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اکثر اوقات اینکرز کی زبان سے غیر ذمہ دارانہ جملے یا غلط بیانی سامنے آ جاتی ہے، کیونکہ وہ اصل خبر کے محرکات سے واقف ہی نہیں ہوتے۔

 صحافت صرف “بریکنگ نیوز” کا نام نہیں

صحافت عوامی شعور، حق گوئی اور سماجی اصلاح کا ہتھیار ہے۔ جب اینکرز صرف ریٹنگ، سیاست یا بریکنگ کی دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں، تو وہ صحافت سے دور ہو جاتے ہیں۔

ایک صحافی کبھی بھی صرف کیمرا پر چیخنے کو صحافت نہیں سمجھتا، بلکہ وہ جانتا ہے کہ عوام کے سوالات کو آواز دینا، طاقتور سے سوال کرنا، اور مظلوم کی بات اٹھانا اصل صحافت ہے۔

 کچھ روشن مثالیں بھی موجود ہیں

یہ بھی سچ ہے کہ کچھ اینکرز واقعی صحافی بھی ہوتے ہیں۔ انہوں نے فیلڈ سے شروعات کی، رپورٹنگ کی، جان خطرے میں ڈالی، اور پھر اینکرنگ تک پہنچے۔ ان کی بات میں گہرائی، مواد میں تحقیق اور سوال میں اعتماد نظر آتا ہے۔

مگر ایسے لوگ مٹھی بھر ہی ہیں—اکثر اینکر صرف اسکرپٹ پر انحصار کرتے ہیں۔

 اختتامیہ:

 چمکتا چہرہ صحافت کی پہچان نہیں

ہر وہ شخص جو روزانہ رات 8 بجے ٹی وی پر آتا ہے، وہ صحافی نہیں ہوتا۔

ہر وہ آواز جو کیمرے کے سامنے بلند ہوتی ہے، وہ سچ کی نہیں ہوتی۔

اور ہر وہ سوال جو ٹی وی پر پوچھا جاتا ہے، وہ عوام کی نمائندگی نہیں کرتا۔

لہٰذا، بطور ناظر ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ “اینکر” اور “صحافی” میں فرق سمجھیں، اور صرف مقبول چہروں کی بجائے سچے کرداروں کو جانیں۔ صحافت کا اصل چہرہ وہ ہے جو کیمرے کے پیچھے پسینے، جستجو، اور سچ کی قیمت کے ساتھ کھڑا ہے—نہ کہ وہ جو میک اپ، لائٹس، اور سنسی خیز جملوں کے سہارے اسٹیج پر آتا ہے۔(شمعون عرشمان)۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں