کیا پیکا ایکٹ پھیکا پڑنے والا ہے؟

کیا پیکا ایکٹ پھیکا پڑنے والا ہے؟

تحریر: ارم لودھی۔۔

میڈیا ریاست کا چوتھا ستون تصور کیا جاتا ہے یہ وہ ستون ہے جس کی بنیادیں ہلانے میں ہر دور کے حکمرانوں نے سازش کی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں بر سر اقتدار حکمرانوں نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر آزادی رائے کے اظہار میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے جو نت نئے ہتھکنڈے استعمال کئے  وہ آج بھی جاری ہے پرنٹ میڈیا تو پہلے ہی معتدد کالے قانونوں کے زیر عتاب رہ چکا ہے مگر اب مین اسٹریم میڈیا کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل میڈیا بھی محفوظ نہیں رہا۔ سوشل میڈیا جسے آزادی اظہار کے لئے ہائیڈ پارک کے مترادف سمجھا جاتا تھا آج یہ ہائیڈ پارک بھی پیکا جیسے کالے قانون کے ریڈار پر آگیا ہے۔ ایک جانب تو کہا جاتا ہےکہ پاکستان میں صحافت آزاد ہے تو وہیں آزادی اظہارپر قدغن لگانے والے حکمرانوں کی یہ چاہت ہے کہ ذرائع و ابلاغ ہماری ہاں میں ہاں ملائیں گویا سب اچھا ہے کے مترادف ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں کاغذ و قلم اور کیمروں کے زریعے بہادی جائیں تو ایسا ناممکن ہے۔بھلا یہ کیسی ریاست ہے جہاں کا آئین اپنے باشندوں کو آزادی اظہار کا بنیادی حق دیتا ہوں اور حکمران پیکا کے ذریعے اسے ہم سے چھیننا چاہتی ہے۔ یہ آئین کی خلاف ورزی نہیں تو کیا ہے۔ آزادی صحافت تو یہ ہے کہ صحافیوں اور میڈیا کے اداروں پر بے بنیاد الزامات لگا کر پابند سلاسل کیا گیا من پسند خبریں نہ دینے پر معتدد پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا سچ بولنے کے جرم میں کتنے ہی صحافی نوکریوں کے ساتھ ساتھ اپنی جان سے بھی چلے گئے مگر کیا ان کے حق میں حکومتی سطح پر آج تک کوئی بل بن سکا جس میں میڈیا مالکان سمیت ذمہ دار ان کو کٹہرے میں لایاجائے؟ یہی میڈیا مالکان جو سرکاری اشتہارات کی مد میں اربوں کھربوں روپے حکومت  سے وصول کرتے ہے مگر اپنے ملازمین کو بروقت تنخواہیں دینے کے لئے ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے۔ افسوس ایسے میڈیا سیٹھوں کو سزا ہوں سے دوچار کرنے کے لئے پیکا ترمیمی  ایکٹ میں کوئی شق موجود ہی نہیں ہے کیونکہ حکومت ایسے ایکٹ لانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔صحافیوں کو بروقت تنخواہیں نہ ملنا یہ نیم بے روزگاری نہیں تو کیا ہے؟ نمبر ون کی دوڈ میں بھاگنے والےمیڈیا ہاؤس میں ماہ رمضان میں عید بونس تو دور کی بات دو ڈھائی مہینے بعد ملازمین کوتنخواہیں بھی آدھی ادھوری دی گئی حالانکہ کراچی پریس کلب کے پانچویں بار منتخب ہونے والے صدر فاضل جمیلی بھی اسی بڑے ادارے سے وابستہ ہے مگر افسوس وہ خود بھی ان ملازمین کے حق میں آواز اٹھانے سے قاصر رہے۔ آج ملک میں آزادی صحافت تو یہ ہے کہ کسی صحافی کی بات یا تجزیہ پسند نہیں آتا تو بااثر حلقوں سے وابستہ نامعلوم شخصیات کی ایک فون کال پر ہمارے میڈیا مالکان بھی بے بس و لا چار  نظر آتے ہیں۔ جو ایکٹ صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے جو  میڈیا سیٹھوں کوسزائوں سے دوچار نہ کر سکے وہ تو یونہی بہت جلد پھیکا پڑنے والا ہے۔ اہم تو یہ ہے کہ اس ایکٹ کو لانے والے مستقبل میں اس ایکٹ کی زد میں آئے گے یا عام عوام ہی اس کا شکار ہونگے؟  موجودہ حالات میں فیک نیوز کی روک تھام بے حد ضروری ہے مگر اس کو جواز بنا کر عوام  سے  یہ بنیادی حق نہ چھینا جائے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جس صحافی کی بات سے اختلاف ہو اس پر پیکا ایکٹ مسلط کر کے زبان بندی کر دی جائے یا ویگو ڈالے بھیج کر اٹھا لیا جائے اختلاف ضرور رکھیں مگراظہار رائے کی آزادی کو مت کچلیں۔ (تحریر : ارم لودھی)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں