کیا لوگ ہیں صحافی بھی۔۔!

تحریر: منصور مانی

صحافت جو کبھی ایک مقدس پیشہ رہی اب بس “پیشہ ور” ہو چلی ہے صحافتی ادارے اب ادارے نہیں کارخانے بن چکے ہیں، مقصد بس ایک طاقت اور بہت پیسہ حاصل کرنا۔۔!

ریاست کے چوتھے ستون سے “چ** ستون” بننے کا عمل بڑی حد تک مکمل ہو چلا ہے، اور اس میں بڑی حد تک ذمے دار ہماری صحافتی تنظیمیں اور صحافی ہیں، اور سب سے بڑھ کر وہ نام نہاد افراد جو کسی سفارش یا پیسے کے زور پر اینکر/رپورٹر بن گئے افسوس اب کئی صحافتی اداروں کی “نشستیں”  تک بکاؤ ہیں کچھ پیسوں میں بک جاتی ہیں کچھ “اوپر والوں ” کے دباو میں دے دی جاتی ہیں۔۔!

المیہ ہی ہے کہ پورے پاکستان میں اگر صحافتی تنظیموں کی گنتی ہی شروع کر دی جائے تو وہ ہزاروں میں نکل آئے گی تقسیم در تقسیم کے اس عمل نے صحافت اورصحافیوں کو اس قدر کمزور کر دیا ہے کہ وہ بس ایک بے ضرر احتجاج یا پریس ریلیز جاری کرنے تک رہ گئے ہیں متحد ہوتے تو درست معنوں میں ریاست کا چوتھا ستون ہوتے اور طاقت کے ایوانوں میں کچھ عزت ہوتی۔۔!

اخبارات بند ہو رہے ہیں جو بچ رہے ہیں انہوں نے شاہ کا مصاحب بننے میں ہی عافیت جان لی ہے۔۔! اب نہ وہ صحافیوں پر برستے کوڑے ہیں اور نہ وہ اخبار۔۔! ہاں ایک  نامعلوم ویگو ڈالا ضرور موجود ہے جو کبھی کبھی کسی صحافی کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے اسے شمالی علاقاجات کی سیر پر ضرور روانہ کر دیتا ہے۔۔!

ہمارے نیوز چینیلز بھی کسی سے پیچھے نہیں ہر چینل کسی نہ کسی کے مفاد کی بنسی بجا رہا ہوتا ہے۔

 صحافیوں کو چاہے وہ عملی میدان میں ہوں ڈیسک پر ہوں یا کیمرے کے پیچھے صحافتی اداروں کی جانب سے معاوضے کے نام پر جو کچھ دیا جاتا ہے اس پر صرف شرمندگی ہے اور کچھ نہیں کسی نے سچ لکھا نیوز چینل ہویا اخبار ایک صحافی کی تنخواہ ایک خاکروب کے برابر ہی ہے” زیادہ تر ڈیسک پر کام کرنے والے اور کیمرہ مینز اس ظلم کا شکار ہوتے ہیں۔

ایک صحافی صبح اٹھتا ہے زبوں حالی میں اپنے پرانے اسکوٹر پر خبر کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے خبر نکلاتا ہے اس پر محنت کرتا ہے  خبر اور صحافت کی حرمت کا پاس رکھتا ہے  تعلقات قائم نہیں کرتا کیوں کے اگر وہ تعلقات نبھائے گا تو خبر مر جائے گی  وہ خبر کو زندہ رکھتا ہے جس کے نتیجے میں مرتے دم تک اس کے پاس ماسوائے ایک اسکوٹر یا ایک آبائی مکان اگر ہو تو کچھ نہیں بچتا وہ ترکے میں مفلسی ہی چھوڑ کر جاتا ہے اربوں کے اس “خبری کاروبار” میں ایماندار صحافی کے لیے تمغا ایمانداری کے سوا کچھ نہیں نا اچھی تنخواہ نہ دیگر مراعات۔۔!

دوسری جانب ایک “صحافی” جو اپنے تعلقات کا استعمال کرنا جانتا ہے وہ نئے ماڈل کی گاڑی میں گھومتا ہے چینل یا اخبار مالکان کے کئی پھنسے کام نکلواتا ہے اور جانے کیا کچھ کما جاتا ہے۔۔! ہوتا تو یہ بھی صحافی ہی ہے۔۔! خبریں اس کے پاس بھی ہوتی ہیں لیکن یہ ان خبروں کو مار دیتا ہے نتیجے میں خود زندہ رہتا ہے۔۔!

خبر دینے اور خود خبر بن جانے کے مرحلے میں کئی ایسے صحافی ہیں جنہوں نے سچ پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا خبر کو زندہ رکھا اور خود ایک خبر بن گئے انہیں “سلام” کے جز ان کا احترام۔اور انہیں  عزت سے یاد کرنے کے علاوعہ ہمارے بس میں “سب کچھ” ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں۔۔!

الیکٹرونک، ڈجیٹل اور پرنٹ  ان تینوں میڈیم کے ہوتے ہوئے بھی آج صحافت خال خال ہی نظر آتی ہے کہیں بھی پورا سچ نظر نہیں آتا اور جو سچ دینا چاہتے ہیں ان کے ہاتھوں کو جکڑ لیا جاتا ہے۔۔!

ایک صحافی بیک وقت مظلوم بھی ہے اور ظالم بھی،

 ظالم ہے اگر اختیار رکھتے ہوئے بھی اپنے ساتھ کام کرنے والے صحافیوں کا حق مارتا ہے ان کی تنخواہ ان کی مراعات کے لیے اختیار ہوتے بھی ادارے کے مالکان سے بات نہیں کرتا انہیں سہولیات نہیں دلواتا۔۔!

دوسری جانب مظلوم بھی ہے عوام کو با خبر رکھنے کے چکر میں اپنے گھر اور خاندان سے بے خبر رہ جاتا ہے۔

مجھے اپنی دادی کی ایک کہی بات یاد آئی، انہوں نے کہا تھا جو جانور اپنے گھر والوں کا خیال نہیں رکھتے ان کا ساتھ نہیں دیتے ان کی دم کٹ جاتی ہے ہو سکتا ہے یہ بات انہوں نے مذاق میں کہی ہو ۔۔۔!

میں نے سوچا اچھا ہوا انسان کی دم نہیں ہوتی ورنہ تو کئی انسان دم کٹے ہوتے!

اور صحافی، لکھنے والے تو اس حوالے سے سر فہرست ہوتے۔۔!

ہم لوگ کیا لوگ ہیں ہم ؟

ہم لکھتے ہیں، گالیاں کھاتے ہیں الزامات سہتے ہیں ، خبر کی کھوج میں یہاں سے وہاں خوار ہوتے ہیں، اپنے گھر والوں کا قیمتی وقت جانے کیسے کیسے لوگوں میں دیتے ہیں ! ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب ہمارے بچے بڑے ہو جاتے ہیں کیسے ان کے حسین پل ہم سے کھو جاتے ہیں، ہم رات بھر پریس کلب یا ادھر ادھر پڑے رہتے ہیں، گھر جاتے ہیں تو بچے سو چُکے ہوتے ہیں ،بیوی ہمارے لکھے ہوئے کا عذاب سہتے سہتے میگرین کی مریضہ بن چُکی ہوتی ہے!ہم سماج کے ٹھیکےدار بنے سدھار میں اپنے گھر کی سدھ بدھ بھلائے بیٹھے ہوتے ہیں، بچے کس کلاس میں ہیں کیا پڑھ رہے ہیں ہمیں تفصیل معلوم ہی نہیں ہوتی بس سال کے سال ایک رپورٹ کارڈ ملتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ  بچہ پوزیشن ہولڈر ہے! چھٹی والے دن بھی کوئی نہ کوئی تقریب کوئی سیمنار کوئی ڈنر سر پر ہوتا  ہے جسے کبھی کبھی ہم نظر انداز کر کے آخر بیوی بچوں کو وقت دے ہی دیتے ہیں!(منصورمانی)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں