ye sadi hai kitabo ki

کیا “ادبی ستاروں”کی تلاش بھی “اندھوں” کے ہاتھ ہے؟؟؟

تحریر: امجد عثمانی۔۔

 بھارت کے “جہنم مزاج”گیت نگار جاوید اختر کو ان کے حال پر “نہال” چھوڑیے۔۔۔آئیے کچھ دیر پاکستان کے “باغ و بہار” پنجابی بابے کی مجلس میں بیٹھیے کہ جو سرحد کے آر پار کوئل کی طرح چہک رہا۔۔۔کانوں میں رس گھول رہا ہے۔۔۔میری مراد پنجابی کے درویش شاعر جناب بابا نجمی ہیں۔۔۔تو “صف دوستاں” کو نوید ہو کہ بابا جی تیزی سے روبہ صحت ہیں۔۔ہوا کچھ یوں کہ کچھ ہفتے پہلے ایک درگاہ پر بیٹھے علالت نے اچانک ان کی زبان پر آن بوسہ لیا اور وہ علالت کو رسوائی سے بچانے کے لیےکچھ دن” مہر بہ لب” ہو گئے۔۔۔”منادی” سے متنفر بابا جی کو کون سمجھائے کہ اب تو معالج بھی مرض کی جانچ کے لیے زبان سے زبان کے لمس کو رواج دے رہے اور دھوم مچا رہے ہیں ۔۔۔اگلے دن بابا جی کا فون آیا کہ کچھ دل کی باتیں کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔۔ تعمیل حکم میں پہلی بار لاہور میں ان کی اقامت گاہ پر حاضری کا شرف ملا تو باغ باغ ہوگئے۔۔۔۔خلوص دل امڈ آیا۔۔پلکیں بچھادیں۔۔۔۔عشائیہ سجا دیا۔۔۔رات کے پہلے پہر سجی طویل نشست لمحوں میں بیت گئی۔۔۔بابا جی تشکر میں بھیگ گئے اور وہی اللہ۔ کے کرم کے قصیدے کہے۔۔۔کسی ایک مجلس میں کہا ان کا جملہ یاد آگیا کہ اللہ کی قسم رب سے کبھی مال و زر نہیں مانگا۔۔جب بھی مانگا اچھا شہر مانگا یے۔۔۔۔ایک اور مجلس میں کہنے لگے کہ اگر اللہ نے میری عمر ستر سال لکھی ہے تو کیا وہ دال کھانے سے انہتر اور مٹن کھانے سے اکہتر برس ہو جائے گی؟اگر نہیں تو میں کیوں زندگی کی کے پیچھے بھاگوں؟؟سابق ڈی جی پلاک محترمہ صغرا صدف نے لاہور پریس کلب میں بابا جی کی ایک سالگرہ تقریب پر گواہی دی تھی کہ کچھ شاعر گاڑیوں پر مشاعرہ پڑھنے آتے اور معاوضے کیلئے لڑتے ہیں۔۔۔ بابا جی پیدل آتے ہیں اور چیک ٹھکرا کر چلے جاتے ہیں۔۔۔۔۔بابا جی ایک مرتبہ کرم کا تذکرہ کرتے تو اشکبار ہی ہو گئے اور کہا کہ پاکستان میں پنجابی کے اتنے بڑے بڑے شاعر ہیں لیکن انہیں شہر سے باہر کوئی نہیں جانتا اور مجھ پر کرم کا یہ حال ہے کہ سات سمندر پار گونج ہے۔۔۔۔ بابا جی کی عادت ہے کہ جب بھی کوئی اچھی خبر ہو اطلاع دیتے ہیں۔۔۔۔اب کی بار بتایا کہ اللہ کا ایک اور کرم ہو گیا اور وہ یہ کہ بھارت کی ایک یونیورسٹی نے میرے کلام کو اپنے گریجوایشن کے نصاب میں شامل کر لیا ہے۔۔ساتھ ہی جھک گئے اور کہنے کہ کوئی یونیورسٹی کسی میٹرک پاس بندے کو اپنے نصاب میں پڑھائے تو کیا یہ بڑے کرم کی بات نہیں؟؟؟خبر یہ ہے کہ پنجابی کے بین الاقوامی شاعر بابا نجمی کے کلام کو بھارتی ریاست راجستھان کی گنگا سنگھ یونیورسٹی نے اپنے نصاب میں شامل کر لیا یے۔۔۔ اب بھارتی طلبہ پاکستان کے پنجابی بابے کی شاعری کو پڑھے بغیر گرایجویشن نہیں کر سکیں گے۔۔۔جدید پنجابی شاعری کی اس نصابی کتاب کا نام ”کوی اُڈاری“یعنی شاعرانہ پرواز ہے۔۔۔۔اس کتاب کے مولف ڈاکٹر کلدیپ سنگھ اور سندیپ سنگھ منڈے ہیں۔۔۔۔اس کتاب میں کل بارہ منفرد اور معروف شاعروں کا کلام شامل کیا گیا ہے۔۔۔۔۔بھارت کے ایوارڈ یافتہ شعراء جن میں امرتا پریتم‘شو کمار بٹالوی‘ڈاکٹر جگتار‘ڈاکٹر ہر بھجن سنگھ‘ بابا نجمی‘ اوتار لوپ‘بھائی ویر سنگھ‘پروپورن سنگھ‘دھنی رام چاترک‘پروفیسر موہن سنگھ‘سرجیت پاتر‘سنت رام اداسی اور جسونت ظفر کا کلام کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔۔۔اس طرح بابا نجمی واحد پاکستانی پنجابی شاعر ٹھہرے جن کا کلام بھارت کی کسی یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہوا ہے اور یہ ادبی محاذ پر پاکستان کی برتری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔۔امر واقعہ یہ ہے کہ بھارت کے سکھ بابا نجمی کا پانی بھرتے اور گھٹنے چھوتے ہیں کہ وہ ان کے گورو بابا نانک کی زبان کے گن گاتے ہیں۔۔۔کچھ سال پہلے بھارتی پنجاب میں مودی حکومت کے خلاف کسان تحریک چلی تو وہاں بھی پاکستان کے پنجابی بابے کے کلام کی گونج تھی۔۔۔سکھ سنگ تراشوں نے بھی پنجابی زبان کے لیے گراں قدر خدمات پر 2013میں بھارتی شہر موگا اور اگلے برس برنالہ میں بابا نجمی کا مجسمہ سجایا۔۔۔برنالہ میں مجسموں کی تعداد 12ہے جہاں بابا بلھے شاہ کا مجسمہ بھی نصب ہے۔۔۔۔اس کے علاوہ بابا نجمی کا انگلینڈ کے سکھ نیشنل میوزیم میں بھی پوسٹر سجایا گیا۔۔۔یہی نہیں امریکہ میں بنی ایک فلم “پنڈ امریکہ” میں بھی ان کا ایک گیت فلمایا گیا۔۔۔۔بھارت کے کئی سکولوں کے کتب خانے پاکستان کے بابا نجمی سے منسوب ہیں۔۔۔بابا جی پر اب تک دو ایم فل بھی ہو چکے ہیں جبکہ کینیڈا‘انگلینڈ‘ قطر‘ بھارت اور دیگر ممالک میں بہت سے ایوارڈز اپنے نام کر چکے ہیں۔۔۔۔بچپن سے لمبی زلفوں والے میانہ قد بشیرحسین کے منوبھائی کی طرح بابا نجمی بننے کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔۔۔۔ساتویں کلاس میں تھے کہ کسی دوست کے ساتھ اپنے ایک عزیز کی عیادت کے لیے میو ہسپتال گئے۔۔۔۔منچلے سنگھی نے وہاں کسی ڈاکٹر نجمی کے نام کا بورڈ دیکھا تو کہا یار بشیر آج سے تو بھی ہمارا نجمی ہے۔۔۔۔پھر سکول میں ایک ڈرامے میں انہیں “بابے” کا کردار ملا۔۔۔ادھر ایک مہربان نے پرفارمنس دیکھ کر کہا کہ آج تو آپ واقعی بابا نجمی ہی بن گئے۔۔۔۔پھر لاہور کے علاقے غازی آباد کا بشیر حسین شناختی کارڈ تک محدود رہ گیا اور بابا نجمی سرحدیں عبور کرکے” انٹرنیشنل برانڈ “بن گیا۔۔۔۔77سالہ بابا نجمی نے زندگی کی 33 بہاریں شہر قائد میں دیکھیں۔۔۔۔وہ عین شباب 25سال کی عمر میں کراچی گئے اور 2097کو 58برس میں بڑھاپے کو سینے سے لگائے آبائی شہر لاہور لوٹے۔۔۔۔۔۔بابا جی کی طرح ان کا کلام بھی بڑا دل موہ لینے والا ہے۔۔۔ان کی چار کتابیں میرا ناں انسان ۔۔سوچاں وچ جہان۔۔۔۔اکھراں وچ سمندر۔۔۔۔اور سرکا راما۔۔۔پنجابی ادب کا حسن ہیں۔۔۔۔چار مرلے کے سادہ سے آبائی گھر میں بیٹھے بابا نجمی نے اپنا تازہ شعر سنا کر رلادیا:کوئی وی میرا یار مرے نہ میرے مرن تو پہلاں ماڑے دا غم خوار مرے نہ میرے مرن توں پہلاںمجھے اپنے بچھڑے دوست جناب تنویر عباس نقوی۔۔حافظ ظہیر اعوان اور حافظ نعیم شدت سے یاد آئے۔۔۔۔۔بزرگوارم جناب راجہ اورنگزیب اور جناب خالد چودھری بھی آنکھوں سامنے گھوم گئے۔۔۔۔مجھے بابا جی کا ایک اور دل دہلا دینے لینے والا شعر یاد آگیا اور میں نے بصد احترام ان سے ایک نجی سوال بھی پوچھ لیا:انج لگدا اے میری گڈو میرے ای بھانڈے مانجے گیایہنوں ٹورن لئی میں کتھوں ٹی وی کار دیاںنویں رواجاں جیہڑا کیتا ہمسائے دی دھی دا حالویکھ کے میرا جی کردا اے اپنی لاڈو ماردیاںمیرے سوال پر بابا جی ایک بار پھر تشکر میں بھیگ گئے اور بتایا کہ میری چھ بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔۔۔کبھی میں اور میرا ایک دوست جس کی بھی چھ ہی بیٹیاں ہیں،کراچی کی سڑکوں پر پتھر کوٹتے اور سوچتے تھے کہ چھ چھ بیٹیاں کس طرح بیاہیں گے۔۔۔۔پھر ہم دونوں پر اللہ کا ایسا کرم ہوا کہ بیٹیوں کے مقدر جاگ اٹھے اور وہ بخیر وخوبی اپنے اپنے گھر سدھار گئیں۔۔۔یقین جانیں بابا نجمی کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ اس عہد کے انسان نہیں، کسی بڑے قبیلے سے بچھڑے ہوئے وضع دار سردار ہیں۔۔!!بابا نجمی کو دیکھ کر سوچ میں پڑگیا کہ پاکستان کے ایسے باوقار ادبی ستارے”،جس کا دنیا میں چرچا ہے،کو ستارہ امتیاز کیوں نہیں ملتا؟؟چاند دیکھنے والوں کا تو سنا تھا۔۔۔کیا “ادبی ستاروں” کی تلاش بھی “اندھوں”کے ہاتھ ہے؟؟ اگر جواب ہاں ہے تو پھر کسی سے کیا شکوہ کہ اندھے تو ہمیشہ سے اپنوں میں ہی ریوڑیاں بانٹتے کا مزاج رکھتے ہیں!!!(امجد عثمانی)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں