kuch log sahafat ke naam par dhanda kar rhe

کچھ لوگ صحافت کے نام پر دھندا کررہے ہیں، رؤف کلاسرا۔۔

سینئر صحافی، کالم نویس اور تجزیہ کار رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ۔۔ مجھے حکومت اور وزرا کے بیک ٹو بیک سکینڈلز بریک کرنے پر تین دفعہ بیسٹ رپورٹر‘ کا اعزاز ملا اور وہ تینوں سکینڈلز مشرف حکومت میں ہونے والی کرپشن سے متعلق تھے۔ اکثر لوگ گلہ کرتے ہیں کہ جب آپ سیاستدانوں کی کرپشن کے سکینڈلز اور خبریں نکالتے ہیں تو اس سے سیاست‘ جمہوریت اور سیاستدان کمزور ہوتے ہیں۔ اس سے یوں لگتا ہے کہ آپ آمروں کا راستہ ہموار کر رہے ہیں۔مطلب سیاستدانوں کو کھلی چھٹی ہونی چاہیے‘ اوراگر آپ نے ان پر تنقید کی تو آپ مقتدرہ کے ایجنٹ ہیں۔ آپ سیاست اور سیاستدانوں کے دشمن ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سیاستدان خود کو ٹھیک کرنے کی کوشش نہ کریں‘ اس لیے آپ انہیں شک کا فائدہ دیتے رہیں۔ وہ فرینڈز اور فیملی پیکیج کے ساتھ لوٹ مار مچاتے رہیں‘ آپ کو بلیک میل کرتے رہیں کہ اگر اُن پر تنقید کی تو پھر تم پر آمر حکمران مسلط ہو جائے گا‘ اب سوچ لو کہ تمہارے لیے کون بہتر ہے۔ دنیانیوز میں اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ ۔۔ نواز شریف وزیراعظم بنے تو وہ اپنے اس چار سالہ دور میں 400 دن ملک سے باہر رہے۔ اپنی تیسری وزارتِ عظمیٰ میں انہوں نے 120 سے زائد غیر ملکی دورے کیے‘ آٹھ ماہ تک پارلیمنٹ نہ گئے‘ ایک سال تک سینیٹ کا منہ نہ دیکھا‘ آٹھ ماہ تک کابینہ اجلاس نہ بلایا۔ جو بندہ وزیراعظم بن کر 400 دن ملک سے باہر رہا ہو اور ایک ایک سال تک پارلیمنٹ کا منہ تک نہ دیکھتا ہو‘ وہ بعد میں یہ پوچھتا اچھا لگتا ہے کہ مجھے کیوں نکالا؟ ہم ان پر تنقید کرتے تھے تو ان کے حامی یہ طعنہ دیتے تھے کہ آپ لوگ غیرجمہوری طاقتوں کے ایجنٹ ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ سب سیاستدان اور ان کے حواری یہی کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے تو نہیں بدلنا‘ ہم ایسے ہی رہیں گے‘ تم صحافی ہمارے ساتھ ایڈجسٹ کرو۔ اگر نہیں کرو گے تو تم جمہوریت دشمن ہو۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ عمران خان کے دورحکومت میں آپ تبھی اچھے صحافی کہلا سکتے تھے جب آپ حکومت کی پالیسیوں کی اندھا دھند حمایت کرتے۔ میں کئی صحافی دوستوں کو جانتا ہوں جو یوٹیوب اور ٹی وی سکرین پر متضاد نقطۂ نظر بیان کر رہے تھے۔ یعنی یوٹیوب پر وہ عمران خان کے حامی اور ٹی وی شوز میں خان کے خلاف تھے۔ یوں انہوں نے خان کے فالوورز کو بھی خوش کیا ہوا تھا اور یوٹیوب سے ڈالرز کما رہے تھے اورا سکرین پر انہوں نے مقتدرہ اور حکومت کو بھی خوش رکھا ہوا تھا۔ اس سے مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ سارا مسئلہ پیسے کا ہے۔ اس کا صحافت سے کچھ لینا دینا نہیں۔ وہ سب لوگ صحافت کے نام پر دھندا کر رہے تھے۔اپنے کالم میں رؤف کلاسرا کا کہنا تھا کہ ۔۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان سیاسی حکومتوں اور حکمرانوں کی کامیابی تھی کہ وہ صحافیوں کو دوست اور دشمن میں تقسیم کرنے میں کامیاب ہوئے۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں