پپو نے انکشاف کیا ہے کہ بلوچستان میں صحافت سرکار کے حوالے کردی گئی ہے۔ پانچ صحافی جوکوئٹہ پریس کلب اور بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے اہم عہدوں پر بھی فائز رہے اور یہ افراد آج بھی کوئٹہ پریس کلب کے نہ صرف ممبرز ہیں بلکہ اہم عہدوں پر فائز ہیں۔یہ لوگ سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ صحافت کے فائدے بھی اٹھارہے ہیں حالانکہ ملکی قانون اور اعلیٰ عدالتوں کے واضح احکامات ہیں کہ کوئی بھی سرکاری ملازم صحافت نہیں کرسکتا۔۔اسی طرح سرکاری صحافت صوبہ بھر میں جاری ہیں کوئٹہ پریس کلب کے اہم عہدوں پر فائز رہنے والے سرکاری چپڑاسی، فارمسسٹ،ہیلپر، جونیئر کلرک ڈیٹا آپریٹر کے عہدوں پرتعینات ہیں جو صحافت اور سرکار دونوں سے اپنے مفادات لے رہے ہیں۔سرکاری ملازم صحافیوں کے صف میں شامل ایک صاحب پی ایف یوجے کے سینئر عہدیدار بھی ہیں، جب کہ ایک سینئر صحافی جو پہلے بول نیوز میں تھے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے دور میں پی ٹی وی میں لگے اور لاکھوں میں تنخواہ لے رہے ہیں، یہی نہیں کوئٹہ پریس کلب کے ایک رکن صحافی سرکاری پولیو پروگرام کا حصہ ہیں وہ بھی لاکھوں میں تنخواہیں لے رہے ہیں۔ اور جب بلوچستان کے غریب صحافی کی بات آئے تو کچھ بھی نہیں کرتے آج تک ایک ہاوسنگ اسکیم بھی نہ کروا سکے۔پپو کا کہنا ہے کہ کوئٹہ کے صحافیوں کی جائیدادوں سے متعلق بہت جلد اہم انکشافات سامنے لائیں گے۔۔