کوئٹہ میں صحافیوں کے تحفظ،حقوق اور انصاف کی باتیں کرنے والے ہی صحافیوں کے دشمن نکلے،کوئٹہ میں خاتون صحافی کو سچ بولنے پر چند صحافیوں کی جانب سے نوکری سے نکلوانے سمیت سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں،پپو نےجب کوئٹہ کے چند نام نہاد سرکاری ملازم صحافیوں کے ناموں کی خبر جاری کی تھی جو کوئٹہ کے دیگر سوشل میڈیا گروپ کی زینت بھی بنی خاتون صحافی نے خبر مقامی خبروں کے ایک واٹس ایپ گروپ میں شئیر کرتے ہوئے پریس کلب کے عہدے داران سے خبر کی تصدیق کرنے کی جانب اشارہ دیا مگر پپو کے مطابق خبر سچی ہونے کے باوجود سرکاری ملازم ان صحافیوں کی ویرفکیشن کروانے کے بجائے خاتون صحافی کو ذہنی اذیت دینے کے ساتھ مختلف حربے سے تنگ کیا جارہاہے یہاں تک کے ان کی کردار کشی بھی کرنے کی کوشش کی گئی جس پر خاتون صحافی جو ایک چینل کی بیورو چیف بھی ہیں نے تنگ آکر پریس کلب کی ممبر شپ سے استعفی دے دیا،یاد رہے کہ خاتون صحافی 2 سال قبل تک ایک سرکاری محکمے میں دیگر صحافیوں کی طرح جاب بھی کرتی تھیں مگر مسلسل انہیں تنگ کرنے کے باعث انہوں نے سرکاری ملازمت سے بھی جبری ریٹائرمنٹ لے لی تھی جس کے بعد انہیں پریس کلب کی ممبر شپ تو دے دی گئی مگر بی یو جے کی ممبر شپ دینے سے اس لئے انکار کیا گیا کہ وہ پینشنر ہیں جبکہ کوئٹہ پریس کلب ،بی یو جے اور پی ایف یو جے کے ممبر تقریبا 25 صحافی سرکاری ملازم اور 25 ہی کے قریب پینشنر ہیں جو عرصہ دراز سے ان تنظیموں اور کلب کے انتخابات میں ووٹ بھی کاسٹ کرتے آرہے ہیں جبکہ 2025۔26 کے کوئٹہ پریس کلب اور بی یو جے کے پریس کلب اور پی ایف یو جے کے پریس کلب میں بھی ووٹ کاسٹ کرچکے ہیں سرکاری ملازمین عرف صحافیوں کے ووٹ کاسٹ کرنے سے یہ تمام انتخابات کالعدم ہوگئے ہیں مگر ان کے خلاف بولنے والوں کا وہی انجام ہوتا ہے جو اس وقت خاتون صحافی کا ہورہا ہے۔