کراچی ،اسلام آباد زلزلے کی زد میں

تحریر: بلال احمد۔۔

کم و بیش چار سال قبل کراچی میں زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوئے تو میں نے ایک وی لاگ کے ذریعے مستقبل میں قدرتی یا مصنوعی زلزلوں سے متعلق آگاہی فراہم کی ۔چونکہ پاکستان میں مذہب دین اسلام ہے اور روایتی مولوی کے ذریعے جو ذہن سازی ہوئی اس لیے ہماری سمجھ سے بالاتر ہر اقدام یا تو خدا الہی کی جانب سے عذاب یا پھر دجالی فتنہ کا ظہور ہوتا ہے۔

حالیہ زلزلوں اور اسلام آباد ژالہ باری کے بعد تاثرات ہمارے ویژن کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔ زلزلوں کے بارے میں ہماری روایتی سوچ یہی ہے کہ زلزلے صرف خدا کا عذاب اور غیب کا علم ہے جو خدا کے علاوہ کسی کو نہیں معلوم اور اگر آپ نے اس سے باہر سوچا بھی تو دوبارہ کلمہ پڑھ کر ایمان واپس لانا ہوگا۔

ایک ماں کی کوکھ میں 9 ماہ رہنے والا بچہ ہے یا بچی۔ صحت کے اعتبار سے کیا پیچیدگیاں ہیں۔ ایک زمانے تک یہ بھی غیب کا علم رہا اور پھر سائنس نے اتنی ترقی کی کہ بچے کے دل کی دھڑکن اس کے بنیادی ڈھانچے کی تشکیل کے ابتدائی دنوں ہی میں نہ صرف آپ سن سنتے ہیں بلکہ بچے کی صحت سے متعلق پیچیدگیوں میں بھی پیشگی آگاہی حاصل کر سکتے ہیں۔

ہم میں سے کوئی لبرل ہو یا مذہبی، آج کوئی بھی اپنی خواتین کو نہیں کہتا کہ خبردار، اگر ڈاکٹر سے بچے کی صحت، بیماری کے بارے میں پیشگی جاننے کی کوشش کی یا علاج کرایا۔ کیونکہ یہ علم صرف اس وقت تک غیب کا رہا۔ جب تک اس علم کے بارے میں عملی تجربہ کرکے ہمارے ذہن نے تسلیم کرنا شروع نہ کیا۔

دنیا میں بہت سے ایسے ممالک  ہیں جنہوں نے زلزلوں کی پھیلی تین بڑی پرتوں کی معلومات اور مستقبل میں آنے والے زلزلوں پر اپنے ممکنہ طور پر اقدامات کیے اور آج ان کی کثیرالمنزلہ عمارتیں زلزلوں سے جھومتی ضرور ہیں مگر اپنے متوازن کو برقرار رکھ پاتی ہیں۔

یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ نظام قدرت کے تحت کراچی ہو یا اسلام آباد، پاکستان کے بیشتر علاقوں کے زیرزمین پرتیں فعال ہو رہی ہے پھر اسی نظام قدرت کے تحت یہ پرتیں پہلے کم درجہ شدت اور پھر تواتر کے ساتھ اس شدت میں اضافے کا باعث بنتی ہیں اور کم و بیش ایک صدی کے دورانیہ کے بعد انتہائی شدت اختیار کرکے زمین ہلا دیتی ہیں۔

نظام قدرت کے تحت زلزلے اپنی جگہ حقیقت ہیں مگر خطرناک بات یہ ہے کہ ان زلزلوں کے علم اور اس کے نظام میں چھیڑ چھاڑ انسانی ہاتھ لگ چکی اور اس سے زیادہ خطرے کی بات یہ کہ یہ علم بھی انہی کے ہاتھوں میں ہے جنہیں آپ اپنا دشمن تصور کرتے ہیں۔

دنیا جس تیزی کے ساتھ سائنسی اعتبار سے نظام قدرت کے رازوں سے پردہ اٹھا کر انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے ہم بطور پاکستانی اس دنیا سے کوسوں دور ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہائی برڈ وار صرف سوشل میڈیا تک محدود ہے اور خلا میں بھیجے جانے والے خلائی مشن صرف ٹیلی کام سیکٹر کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ کون سے ملک میں کون سی موسمیاتی تبدیلی یا کون سے ممالک کے زیرزمین زلزلے کی پرت کو مصنوعی طریقے سے حرکت میں لا کر تباہی پھیلانا ہے۔ یہ صرف خیالات کی حد تک نہیں بلکہ بہت سے ممالک میں اس کے تجربات ہوچکے اور جدید دنیا میں خلائی مشن اب انہی کاموں میں بالاتری کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔

ترکی سمیت بہت سے ممالک میں گزشتہ زلزلوں کے بارے میں بھی یہی شبہات کیے جاتے ہیں کہ وہ ممالک مصنوعی زلزلوں کی تجربہ گاہ بنے۔

جو لوگ مکران بیلٹ پر مٹی کے بڑے تودے اور پرنسز کا مجسمہ دیکھ کر حیرت ذدہ ہوتے ہیں وہ اسی یورپین پرت کا حصہ ہے جس کے بارے میں صدیوں پہلے شدید زلزلہ اور پھر 20 فٹ سونامی برپا ہوا اور اپنی علامات کو ہمیشہ کے لیے مٹی کے تودوں کی صورت میں چھوڑ گیا۔

جن علاقوں کے زیرزمین یہ پرتیں ہیں انگریزوں نے وہاں کبھی تین منزلہ سے زیادہ بڑی عمارت کھڑی نہیں کیں اور آج ہم اسی پرتوں کے اوپر فخریہ انداز میں کثیرالمنزلہ عمارتیں کھڑی کر رہے ہیں۔

ایسے میں خدا پر ایمان بنیادی جز ہے مگر بدلتی دنیا کے ساتھ دور حاضر کے علم کو جاننا اور پیش بندی کرنا بھی ہم پر فرض ہے۔

وگرنہ زلزلے پربا کرنے والوں پرتوں کے عین اوپر ناقص میڑل سے کثیرالمنزلہ عمارتیں کھڑی کرکے محض قہر الہی سے بچنے کی دعائیں کرنے سے ہماری زندگی محفوظ ہونے والی نہیں۔(بلال احمد)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں