سینئر صحافی اور کالم نویس مظہرعباس کا کہنا ہے کہ ۔۔ جنرل فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ میں سب سے اہم الزام سیاست میں مداخلت کا ہے نہ صر ف جب وہ حاضر سروس تھے بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد پانچ سال تک سیاست میں حصہ لینے کی پابندی کی بھی خلاف ورزی کی۔ نہ جانے کیوں جب اِس ’فیلڈ جنرل کورٹ مارشل‘ کی خبر سنی تو مجھے ’ڈان لیکس‘ اور سابق سینیٹر حاصل بزنجو مرحوم یاد آئے،جنرل گل کا 1988ء میں اسلامی جمہوری اتحاد بنانا اور پھر اعتراف کرنا اور پھر تاریخی اصغر خان کیس یاد آئے ۔ نہ جانے کیوں مجھے اپنے صحافی ساتھی اور اینکر حامد میر پر حملہ اور اُس کے بعد جو کچھ جیو اور جنگ کے ساتھ ہوا وہ یاد آیا۔ نہ جانے کیوں مجھے نامور اینکر ارشد شریف یاد آیا۔ جسے پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا گیا پھر بیرونِ ملک ہی شہید کر دیا گیا۔ کردار بدلتے رہے مگر سیاست میں مداخلت کے نتائج ہمیں جمہوریت اور آزادیٔ اظہار سے دور کرتے چلے گئے۔ آج بھی صحافت پر سخت پالیسی بنائی جا رہی ہے۔روزنامہ جنگ میں اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ اب دیکھنا ہے کہ بات ’سول نافرمانی‘ پر جاتی ہے یا پھر یہ ’سول فرمانی‘ میں بدل جاتی ہے تاہم اب تک 15دسمبر کی ڈیڈلائن گزرنے کے باوجود خاموشی ہے۔ کوئی یومِ احتجاج بھی نہیں منایا گیا۔ تاہم ’سانحہ ڈی چوک‘ پر کئی صحافی اور یوٹیوبرز کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی پچھلی حکومت کے دور میں لایا ہوا ’پیکا۔ 2016‘ کا کالا قانون اب اپنی بدترین شکل میں لایا جا رہا ہے۔ غور کریں تو یہ اُسی کا تسلسل ہے جو تحریک انصاف کے دور میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری لاگو کرنے والے تھے اب یہ تاج موجودہ وزیر عطار تارڑ پہننےجا رہے ہیں۔