پردیسیوں کے شہر اسلام آباد میں 19 سال سےصحافی بھی پردیسی ہیں۔ اسلام آباد میں صحافیوں کو آخری بار میڈیا ٹاون کے نام پر 2004 میں سرکاری سطح پر کم قیمت پلاٹس دیے گئے تھے، جس کے بعد سے شہراقتدار میں صحافت کے شعبے میں آنے والے 19 سال سے تاحال اپنا گھر بنانے کے صرف خواب دیکھ رہے ہیں، ہر آنے والی حکومت اور جیتنے والی صحافی تنظیم ورکنگ جرنلسٹس سے وعدے تو بہت کرتی ہے لیکن وہ وفا نہیں ہوپاتے، پی ایف یو جے کے موجود صدر اور جرنلسٹس پینل کے سربراہ افضل بٹ جنہیں نیشنل پریس کلب کا گرو بھی مانا جاتا ہے انہوں اور ان کے گروپ نے بھی صحافیوں کے اپنے گھر دینے کے دعوے اور وعدے تو بہت کیے مگر وہ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور وعدے وفا نہ ہو سکے۔گزشتہ دور حکومت میں وزیراعلی پنجاب چودھری پرویزالہی جنہوں نے 2004 میں صحافیوں کیلئے میڈیا ٹاون بناکر دیا تھا ان سے بات چیت شروع کی گئی لیکن ملک کے سیاسی حالات کے باعث کسی منطقی انجام تک نہ پہنچ سکی، البتہ اتنا ضرور ہوا کہ پنجاب حکومت نے میڈیا ٹاون فیز ٹو بنانے کی حامی بھرلی، اور پھر حکومت ہی جاتی رہی، اب موجود نگران حکومت جس کے کرتا دھرنا نگران وزیراعلی پنجاب محسن نقوی خود بھی صحافی ہیں اور بڑے میڈیا گروپ کے مالک بھی ہیں ان سے بھی نیشنل پریس کلب اور اسلام آباد کی صحافتی تنظیموں نے کئی بار رابطہ کیا لیکن سوائے باتوں اور یقین دہانیوں کے کوئی خاطرخواہ کامیابی نہ مل سکی، یہاں یہ بات اہم ہے کہ اسلام آباد کے 90 فیصد صحافی مقامی نہیں بلکہ دیگر شہروں سے یہاں آکر بسے ہیں اور اپنی صحافتی ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں جبکہ اسلام آباد رہائش کے اعتبار سے پاکستان کا مہنگا ترین شہر سمجھا جاتا ہے، ایسے میں تنخواہ دار صحافیوں کیلئے زندگی گزارنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔پپو کے مطابق گزشتہ دو سال سے افضل بٹ کا جرنلسٹس گروپ میڈیا ٹاون فیز ٹو کا آسرا دے کر صحافیوں سے ووٹ لیکر نیشنل پریس کلب پر حکمرانی کررہا ہے لیکن آئندہ آنے والے الیکشن میں فقط دعوے اور وعدوں پر پر صحافی برادری کو مطمئن کرنا آسان نہیں ہوگا، صحافیوں کے نمائندہ ہونے کے دعویدار پی ایف یو جے اور نیشنل پریس کلب کے عہدیداروں کو اسلام آباد میں بسنے والے ورکنگ جرنلسٹس کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ ان کی طویل حکمرانی اب زوال پذیر ہوجائے گی۔