تحریر: سید بدرسعید۔۔
پاکستان میں گزشتہ چند سال سے ایک مخصوص حلقہ نے ڈیجیٹل میڈیا پر گالم گلوچ اور بدتمیزی کے ذریعے شرفا کی پگڑیاں اچھالنے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا ۔ یہ گالم بریگیڈ کا ایک ایسا ہتھیار تھا جس کے ڈر سے شریف اور باعزت پاکستانیوں نے ان سے بحث و مباحثہ اور مکالمہ چھوڑ دیا تھا ۔ عزت سب کو پیاری ہوتی ہے ۔ فیک اکاؤنٹس ، فحش پن کے اسیر مخصوص ٹک ٹاکر ، بازاری زبان خصوصا خواتین کے زریعے ایسی زبان کا استعمال ، گالیوں کے ساتھ ساتھ بابا کوڈا اور اس جیسوں کی جانب سے سنجیدہ مکالمہ میں گھس کر کھوتی کے بچے اور ایسے جملوں کی بھرمار نے بزرگوں ، شریف شہریوں ، عزت دار خواتین سمیت پاکستانیوں کی بڑی تعداد کو کارنر کر دیا کہ کیچڑ میں پتھر پھینکنے سے کپڑے اپنے ہی خراب ہوتے ہیں ۔ ان کو حکومتی سطح پر اس حد تک پذیرائی اور فنڈنگ دی گئی کہ ایوان وزیراعظم میں حریم شاہ ٹھڈے مار کر دروازے کھولتی نظر آئی ، وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ کر ٹک ٹاک بناتی رہی ، مذہبی ونگ کے سربراہ مفتی قوی کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا رہا ، مشکوک شہرت کے حامل مولویوں کو آگے لایا گیا اور سنجیدہ علما کو کارنر کیا گیا ، اسی دور میں فیملی ولاگرز اور ان کی بے غیرتی کو پروموٹ کیا گیا ۔ ایسے صحافیوں کو آگے لایا گیا جن کی خبر کریڈیبلٹی صرف مخالفین پر کیچڑ اچھالنا تھا ۔ آپ فیملی وی ولاگنگ ، لیک ویڈیوز ، فحاشی پر آمادہ ٹک ٹاکرز سے ان کی پولیٹیکل رائے لے لیں ۔ایسے تمام افراد کا پسندیدہ شخص ایک ہی سیاست دان ہے جس نے اس قماش کے لوگوں کو پروموٹ کیا تھا ۔
بہرحال یہ وہ سوشل میڈیا بریگیڈ تھا جسے ففتھ جنریشن وار سونپی گئی تھی ۔ ان کا کل ویژن سوشل میڈیا پر مخالفین اور اپنی عزتیں اتارنا تھا ۔۔
پاک بھارت جنگ کے آغاز میں ہی اس بریگیڈ کو یہ گائیڈ لائن دی گئی کہ فورا خان کو رہا کرو کے مطالبہ کے ساتھ ریاست اور فوج پر دباؤ بڑھانا شروع کر دو ، بھارت کی کاروائیوں کو ہائی لائٹ کرو ، جنگ سے متعلق ایسے سوال تیار کیے گئے جو عام شہری کو بدظن یا ڈی ٹریک کریں ، دوران جنگ پاک فوج پر تنقید کی جاتی رہی جو بھارتی میڈیا سے نہ صرف شیئر ہوئی بلکہ بھارتی چینلز پر چلائی بھی گئیں۔ یہاں تک کہ بھگوڑا عادل راجہ پاک فوج کے سابق آفءسر کی حیثیت سے بھارتی چینل پر آرمی چیف اور فوج کے خلاف پروگرام کرتا رہا ۔اس بریگیڈ نے پاک فوج کی کاروائیوں پر اعتراض شروع کر دیا ۔ میڈیا نے بتایا کہ رافیل گرا کیا ہے تو یہ بڑی خبر تھی جسے کنفیوژن میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ کبھی ملبہ کا مطالبہ ، کبھی بھارتی چینلز کی جانب سے تصدیق نہ ہونے جا ڈرامہ تو کبھی کچھ اور ۔ بہرحال ان کے ایسے اعتراضات کے دوران ہی بھارتی میڈیا ہی نہیں فرانسیسی کمپنی نے بھی تسلیم کر لیا کہ پاک فوج نے رافیل تباہ کیا ہے۔
بہرحال جنگ کے آغاز پر ہی عام پاکستانی نوجوان میدان میں اتر آئے تھے ۔ اس بار سائبر جنگ پاکستان کے عام پڑھے لکھے نوجوانوں نے لڑی ۔دوسری جانب پاکستان نے خطہ کی سب سے بڑی سائبر وار میں بھی کامیابی حاصل کی اور پاکستانی ہیکرز کے دستہ نے بھارت کا سارا سسٹم ہیک کر لیا ۔ سوشل میڈیا پر عام پاکستانی نوجوانوں نے کامیابی سے اپنا محاذ سنبھالا ، انہیں بھارتی پراپگنڈے کا اتنا مسئلہ نہیں تھا کیونکہ بھارت کی باتوں پر لوگ ہنس رہے تھے لیکن پاکستان کے اندر بیٹھے خود کو سوشل میڈیا بریگیڈ سمجھنے والے ففتھیوں نے جب اپنی ڈائریکشن کے مطابق پاک فوج اور ریاست پر تنقید شروع کی تو ان کو خود بھی سمجھ نہیں آئی کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے ۔ ایک طرف پوری قوم نے ان کے بیانیہ کو رد کر دیا ، عام پاکستانی نوجوانوں نے انہیں گھر کا راستہ دکھا دیا تو دوسری طرف ان کی سوشل میڈیا ریچ بھی کم ہو گئی اور ان کا بیانیہ اس طرح نہیں پھیل سکا جیسے وہ ماضی میں عادی تھے ۔ یہ صورت حال انہیں اب تک سمجھ نہیں آ سکی کہ اس بار ہوا کیا تھا ۔ الحمدللہ پاکستان جنگ جیت گیا اور پاک فوج کی جانب سے باقاعدہ سائبر محاذ سنبھالنے والے نوجوانوں کی تعریف کی گئی۔ اب اس بریگیڈ کے سفید بالوں اور ڈھلتے جسم والے بابوں اور آنٹیوں نے اس تعریف کو کیش کروانے کا سوچا اور فورا بیانیہ بنایا کہ ہم فوج کے ساتھ سوشل میڈیا پر وار لڑ رہے تھے اور یوتھ کہہ کر ہماری تعریف ہوئی ہے ۔ انہیں شاید لگا تھا کہ ادارے مانیٹر نہیں کر رہے تھے ۔ اس کا رسپانس ویسا نہیں ملا تو اداروں میں تفریق کی کوشش کی کہ ایئر فورس ٹھیک ہے اور آرمی سے اختلاف ہے ۔ یہ بیانیہ بھی زمین بوس ہوا تو اب نیا بیانیہ بنایا کہ جنگ کے دوران ہم ساتھ تھے لیکن اب اصولوں کی بنیاد پر تنقید کریں گے ۔
چند دن میں اتنے بوکھلا گئے ہیں کہ ایک بیانیہ بھی ٹھیک سے نہیں چل پا رہا ، ایک کے بعد ایک ناکامی اور بار بار بیانات تبدیل کرنے کے باوجود دال نہیں گل رہی ۔ انہیں یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کہ جس سوشل میڈیا کا خود کو بےتاج بادشاہ سمجھتے تھے وہ راج اور مودی کا غرور ایک ساتھ کیسے تباہ ہو گیا ۔
جنگ بندی کا انتظار تھا ۔ اب کاروائیاں شروع ہو چکی ہیں ۔ایسے افراد کے سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہو رہے ہیں جنہوں نے جنگ کے دوران پاک فوج اور ریاست پر تنقید کی تھی ۔ ان میں پی ٹی آئی کے نام سے چلنے والے پیجز کے ایڈمن بھی شامل ہیں ۔ جنگ کے دوران جو جو کچھ اپ لوڈ ہوا وہ سب محفوظ ہوتا رہا ہے ۔اب فلٹر لگ چکا ہے جو چھلنی سے گزر جائے گا وہ محفوظ ہے ، جو نہ فلٹر ہوا اس کے خلاف بلا تفریق کاروائی ہو گی ۔ نادرا کی ایک آفیسر کو تو دوران جنگ ہی گرفتار کر لیا گیا تھا ، پھر ایک پروفیسر گرفتار ہوا ، انتہائی گھٹیا انداز میں طنز کرنے والی صنم بھی گرفتار کر لی گئی ، چھاپے کرنے شروع ہو گئے تو انہوں نے ایک بیانیہ یہ بنایا کہ ہم نے مودی کے خلاف ریلی نکالی تو ہمیں گرفتار کیا گیا لیکن معافی اس ہر بھی نہیں ملنی ۔ سرکاری ملازمین پر خاص طور پر چیک تھا ۔ عام سیاسی کارکنوں کو بھی چھلنی سے گزرنا پڑے گا
آپ اب لاکھ واویلا کریں کہ ہم نے فوج کی جنگ لڑی ہے لیکن ڈی جی آئی ایس پی آر کے ایک جملہ پر غور کر لیں جنہوں نے کیا تھا یہ اکیسویں صدی ہے اب جو بھی ہو اس کا ڈیجیٹل فٹ پرنٹ لازمی ہوتا ہے ۔ (سید بدر سعید )