تحریر: مبشر زیدی۔۔
وائس آف امریکا کے عام چاہنے والوں کو یہ بات معلوم نہیں ہوگی کہ پاکستان کی پچیس کروڑ آبادی اور امریکا کے ایک لاکھ پاکستانیوں میں کوئی اس قابل نہیں تھا جسے اردو سروس کا سربراہ بنایا جاتا۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ایک بھارتی نژاد صحافی کو یہ ذمے داری سونپی ہوئی تھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وائس آف امریکا کی ہندی سروس بہت سال پہلے بند ہوچکی تھی۔ زی نیوز کے سابق رپورٹر دیپک کئی سال سے اردو سروس کے چیف تھے۔ انھیں اردو لکھنا پڑھنا بالکل نہیں آتی۔ یہاں میں شیخی ماروں گا کہ میں نے ذاتی محنت سے ہندی لکھنا پڑھنا سیکھ لی ہے۔
وائس آف امریکا کا بجٹ مسلسل بڑھ رہا تھا لیکن اس کے باوجود پیسے نہیں ہیں، کہہ کر ہر سال کنٹریکٹ ملازمین نکال دیے جاتے تھے۔ یہ بہانہ پیچھے بچ جانے والوں کو سنایا جاتا تھا ورنہ فارغ کیے جانے والوں کو عموما کوئی وجہ نہیں بتائی جاتی تھی۔ صرف یہ کہا جاتا تھا کہ اب آپ کی خدمات کی ضرورت نہیں ہے۔
اردو سروس سے مجھے نکالا، انجم گل کو نکالا، پرویز ہودبھائی کی بہن نفیسہ ہودبھائی کو نکالا، حالانکہ ان کے شوہر کو کچھ عرصہ پہلے قتل کیا گیا تھا۔ ہر سال ایک دو بندے نکالتے رہے۔ گزشتہ سال بھائی اصفر امام کو نکالا جو کافی سینئر صحافی ہیں اور آٹھ نو سال سے محنت سے کام کررہے تھے۔
کنٹریکٹ ملازمین کو نکالنا آسان تھا لیکن مستقل ملازمین کو نہیں۔ ان کے لیے دوسرے حربے استعمال کیے جاتے۔ رات کی شفٹ لگادی۔ ہفتے اتوار کو دفتر بلالیا۔ کوئی ایسا کام دے دیا جو کرنا مشکل ہو تاکہ خرابی ہونے پر تنبیہہ کا خط دیا جاسکے۔ سینئر کے اوپر جونئیر بٹھادیا اور سختی کرنے کی ہدایت کردی۔ کئی سینئرز نے حالات بھانپ کر خاموشی سے ریٹائرمنٹ لے لی۔
امریکا میں بے شمار ملازمتیں ہیں۔ لوگ جہاز سے اترتے ہی کام شروع کرسکتے ہیں، اگر کرنا چاہیں۔ لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ جاب مطلب کی ہوگی۔ پیسے مرضی کے ہوں گے۔ کم از کم تنخواہ قبول کرلیں تو آج سے کام پر لگ جائیں۔ اگر کوئی پسند کی ملازمت کا انتظار کرنا چاہتا ہے تو کئی سال بھی لگ سکتے ہیں۔ وائس آف امریکا اردو سے ایک صاحب کو دو ڈھائی سال پہلے فارغ کیا گیا۔ مجھے کل کسی نے بتایا کہ وہ تب سے گھر بیٹھے ہیں۔ ابھی تک مطلب کی جاب نہیں ملی۔
میرا خیال تھا کہ ادارہ بند ہونے کے بعد مستقل ملازمین کو اچھی ملازمت نہ بھی ملی تو پینشن ملے گی۔ اس کے ساتھ کم تنخواہ والی جاب کرکے گزارہ کرلیں گے۔ لیکن کل ایک سابق کولیگ نے بتایا کہ سرکاری ادارے خود کوئی پینشن نہیں دیتے۔ ہر شخص کی تنخواہ سے فنڈ کٹتا ہے اور 62 سال کی عمر میں ارلی ریٹائرمنٹ کی درخواست دی جاسکتی ہے۔ اس سے پہلے کچھ نہیں۔ ارلی ریٹائرمنٹ کلیم کرنے پر بہت کم ماہانہ رقم ملتی ہے۔ معمول کے ریٹائرمنٹ بینیفٹس 67 سال کی عمر کے بعد ملتے ہیں۔
میں نے نوکری جانے کے بعد بیروزگاری الاونس نہیں لیا تھا۔ اسی لیے مجھے معلوم نہیں تھا کہ کتنے پیسے ملتے ہوں گے۔ اب پتا چلا کہ ساڑھے تین سے سوا چار سو ڈالر فی ہفتہ ملتا ہے۔ یعنی مہینے کے پندرہ سترہ سو ڈالر جو بہت قلیل رقم ہے۔ زیادہ سے زیادہ چھ ماہ تک یہ رقم وصول کی جاسکتی ہے۔ چھ ماہ کے بعد یہ پیسے بھی بند ہوجاتے ہیں، چاہے ملازمت ملے یا نہ ملے۔(مبشر زیدی)