پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے ان صحافیوں کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے جنہوں نے 1978 میں فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف آزادیٔ صحافت اور اظہارِ رائے کی تحریک میں بے مثال قربانیاں دیں۔پی ایف یو جے کے قائم مقام صدر خالد کھوکھر اور سیکرٹری جنرل ارشد انصاری نے ایک مشترکہ بیان میں کہا: “ہم آزادیٔ صحافت کی تحریک کے ان ہیروز کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے 1978 میں بے پناہ قربانیاں دیں۔بیان میں مزید کہا گیا کہ “پی ایف یو جے اُن تمام صحافیوں کی قربانیوں کا مقروض ہے جنہوں نے اس تحریک میں حصہ لیا، جو ممتاز صحافی رہنماؤں منہاج برنا اور نثار عثمانی کی قیادت میں شروع کی گئی۔یہ تحریک اس وقت کی پی ایف یو جے قیادت نے اس وقت شروع کی جب جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کرکے تنقیدی اخبارات پر پابندی اور سنسرشپ مسلط کی۔یہ تحریک لاہور سے شروع ہوئی اور ملک بھر سے صحافی روزانہ چار، چار افراد کے گروپ میں رضاکارانہ گرفتاری کے لیے آتے رہے۔ لاہور کی ایبٹ روڈ پر ہزاروں افراد ان صحافیوں کے لیے جمع ہوتے، ان کی حوصلہ افزائی کرتے اور مارشل لاء کے خلاف نعرے لگاتے۔گرفتار صحافیوں کو لاہور کی فوجی عدالتوں میں پیش کیا گیا، لیکن صحافیوں نے ان عدالتوں کو ماننے سے انکار کر دیا اور جج حضرات کو صاف کہہ دیا کہ جو سزا دینی ہے دے دیں، کیونکہ یہ عدالتیں آئین کے خلاف ہیں اور ہم ان کو تسلیم نہیں کرتے۔تحریک کی شدت بڑھتی گئی اور ملک بھر سے مزید صحافی گرفتاری کے لیے آنے لگے، جس کے بعد فوجی عدالتوں نے انہیں چھ ماہ سے دو سال تک قید کی سزائیں سنائیں اور انہیں مختلف جیلوں میں بھیج دیا گیا۔ پنجاب کی جیلیں صحافیوں سے بھر گئیں اور حکومت کے تمام حربے ناکام ہو گئے۔بالآخر 13 مئی کو لاہور کی فوجی عدالت نے چار صحافیوں کو قید کی سزا کے ساتھ ساتھ پانچ، پانچ کوڑوں کی سزا بھی سنائی۔ ان صحافیوں میں ناصر زیدی، خاور نعیم ہاشمی، اقبال جعفری اور مسعود اللہ خان شامل تھے۔ عام طور پر کوڑے کچھ دن بعد مارے جاتے تھے، لیکن صحافیوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے اسی روز کوٹ لکھپت جیل میں ناصر زیدی، خاور ہاشمی اور اقبال جعفری کو کوڑے مارے گئے۔ مسعود اللہ خان کو ان کی جسمانی معذوری کی وجہ سے معاف کر دیا گیا۔فوجی حکومت کو امید تھی کہ اگلے دن کوئی صحافی گرفتاری دینے نہیں آئے گا، لیکن پی ایف یو جے کی قیادت نے اعلان کیا کہ تحریک جاری رہے گی۔ کوڑے مارنے کے بعد نوجوان صحافیوں کو گرفتاری کے لیے رضاکارانہ طور پر طلب کیا گیا تاکہ وہ سزاؤں کا سامنا کر سکیں۔ پی ایف یو جے کی اس جرات مندی نے جنرل ضیاء کو اگلے ہی دن کوڑوں کی سزا کا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر دیا۔پی ایف یو جے نے ان صحافیوں کو اپنے اثاثے اور آج کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے لیے مشعلِ راہ قرار دیا۔خالد کھوکھر اور ارشد انصاری نے کہا کہ ناصر زیدی، اقبال جعفری، خاور نعیم ہاشمی اور مسعود اللہ خان کی قربانیاں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔پی ایف یو جے قیادت کا کہنا تھا کہ آج ایک بار پھر میڈیا بدترین سنسرشپ کا سامنا کر رہا ہے۔مشوروں کا کلچر اور قانون کا غلط استعمال پھر سے عام ہے۔ ہم کسی آمرانہ حکومت کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے اور نہ ہی میڈیا پر عائد پابندیاں قبول کریں گے۔انہوں نے صحافیوں سے آزادیٔ اظہار اور صحافت کے تحفظ کے لیے اتحاد کی اپیل کی۔