تحریر:خرم پاشا
الحمد اللہ روزنامہ”لیڈر“کی اشاعت کے22 سال مکمل ہو چکے ہیں ۔ایک کٹھن اور طویل سفر جو مشکلات کے بحران سے گزرتا ہوا جاری وساری رہا۔گزشتہ رات جب 22ویں سالگرہ کا کیک کاٹا جا رہا تھا تو میری آنکھوں کے سامنے وہ تمام منظر آرہا تھا۔جب ”لیڈر“ کا آغاز کیا گیا 23مارچ2002ءکو روزنامہ ”مقابلہ“ کا اجراءکیا گیا جس نے بہت جلد دوپہر کے اخبارات میں اپنا ایک منفرد مقام بنایا اور تیزی کے ساتھ کامیابی کی منازل طے کر رہا تھا۔روزنامہ”مقابلہ“کی سرکولیشن میں دن بدن اضافہ ہو رہا تھا۔ اخبار کے ہر شعبے سے وابستہ ٹیم پورے جوش وجذبے کے ساتھ اپنی خدمات سر انجام دے رہی تھی کہ اچانک پتہ لگا کہ صبح کے اخبار کے طور پر روزنامہ”لیڈر“کا اجراءکیا جا رہا ہے۔ صرف6ماہ کے عرصہ میں ہی دوسرے اخبار کا اجراءہماری سمجھ سے بالاتر تھا ۔راقم ان چند لوگوں میں شامل تھا جس نے اتنی جلدی دوسرے اخبار کے اجراءکی مخالفت کی میری اور چند دیگر دوستوں کی سوچ یہ تھی کہ ابھی ہمیں روزنامہ”مقابلہ“کیلئے مزید محنت کرنا چاہیے۔ساری توجہ اس پر مرکوز رہے گی تو اسکے ثمرات زیادہ سو د مند ہوں گے۔اس حوالے سے ہم دوستوں نے اپنی رائے کا اظہار ایڈیٹر ہمایوں سلیم سے بھی کیا لیکن وہ نہ مانے اور اپنے مشن پر ڈٹے رہے۔
ہمایوں سلیم خاموش طبع طبیعت اور دھیمے مزاج کے انسان ہیں۔کم بولتے مگر کام پورا کر جاتے۔ان کی صلاحیتوں اور محنت کا معترف میں اس وقت ہوا جب انہوں نے محدد وسائل میں روزنامہ”مقابلہ“کے اجراءکے صرف6ماہ کے اندر اندر روزنامہ”لیڈر“کی اشاعت کو ممکن کر دکھایااور ناصرف لاہور بلکہ اسکے بعد راولپنڈی ،اسلام آباد سٹیشن سے اخبار کی اشاعت کو ممکن بنایا۔
خیر راولپنڈی،اسلام آباد سٹیشن کی کہانی اگلی تحریر میں بیان کرونگا۔فی الحال لاہور سٹیشن کی بات کرتے ہیں جن دنوں روزنامہ”لیڈر“کا اجراءکیا جا رہا تھا میں بطور رپورٹر ادارے میں اپنی خدمات سر انجام دے رہا تھا تاہم رپورٹر ہونے کے ساتھ ساتھ میرا ادارے کے چیف ایگزیکٹو علی احمد ڈھلوں اور ایڈیٹر ہمایوں سلیم کے ساتھ برادرانہ اور دوستانہ تعلق ایسا قائم ہو چکا تھا کہ رپورٹنگ کے علاوہ دیگر شعبہ جات اور ادارے کے امور کے حوالے سے میری خدمات ہمیشہ حاصل رہتی تھیں۔ میں میرے ساتھی رپورٹر سید مشرف شاہ اور راحیل سید جناب علی احمد ڈھلوں کی کچن کیبنٹ کا حصہ ہوتے تھے۔
جس صبح روزنامہ”لیڈر“کا اجراءکیا جانا تھا اسی رات ہم سب رپورٹرز لاہور ہوٹل چوک میں روزنامہ”لیڈر“کی تشہیری مہم میں مصروف تھے۔ ہمارے ہاتھ کالی سیاہی سے بھرے پڑے تھے۔ہم وہاں سے گزرنے والی ہر ویگن اور بس پر روزنامہ ”لیڈر“کا نام ایک سپرے کے ذریعے لکھ رہے تھے جبکہ کچھ دوست روزنامہ ”لیڈر“کے سٹیکرز چسپاں کر رہے تھے۔اسی دوران دور سے ہمارے بہت پیارے دوست بھائی رانا جاوید قدیر(مرحوم) دوڑتے ہوئے آئے اور کہا آجاؤ سب ”لیڈر“کا پہلا شمارہ چھپ گیا ہے۔ہم سب خوشی سے دفتر کی طرف دوڑے اور سیدھا پریس میں چلے گئے جہاں چیف ایگزیکٹو علی احمد ڈھلوں اور ہمایوں سلیم سمیت دفتر کی دیگر ٹیم بھی موجود تھی۔ روزنامہ”لیڈر“کے پہلے شمارے کا جائزہ لیا جا رہا تھا۔ہمایوں سلیم کے چہرے پر ایک خاص فاتحانہ مسکراہٹ تھی اور مجھے دیکھ کر زور سے بولے۔سنا….پاشا….نکل آیا”لیڈر“
انکے یہ الفاظ کہنے کا مطلب میں سمجھ گیا کیونکہ میں انکے ساتھ اس معاملے پر خاصی بحث کر چکا تھا کہ روزنامہ ”لیڈر“کے اجراءمیں تاخیر کر دی جائے۔اتنی جلدی کیسے ممکن ہے لیکن جناب ہمایوں سلیم نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ جومشن لیکر چلے تھے اس پر کامیاب ہو گئے یہاں یہ بتاتا چلوں کے اس دور میں روزنامہ ”مقابلہ اور روزنامہ“لیڈر“کا دفتر فلیمنگ روڈ لاہور ہوٹل کے پاس ایک بیسمنٹ میں ہوا کرتا تھا جب ”لیڈر “کا اجراءہوا تو دفتر سٹاف کیلئے چھوٹا پڑ گیا۔تمام شعبہ جات کیلئے اس وقت جوجگہ دستیاب تھی وہ ناکافی ہو چکی تھی ۔خیراُس دفترمیں ہم سب نے 3سال گزارے اور دونوں اخبارات کی ترقی کی منازل طے کرتے 2005ءمیں مزنگ عابد مارکیٹ باڑہ ٹاور کے دفتر شفٹ ہوئے جہاں سے آج تک روزنامہ”لیڈر“کی اشاعت جاری ہے۔
یہ ایک مختصر سی کہانی بتا رہا ہوں کوشش کرونگا ایک مستقل سلسلہ شروع کروں۔جس میں22سال کی طویل جدوجہد ،اتار چڑھاؤ اور ایسے واقعات کا ذکر جو ناصرف دلچسپ ہیں بلکہ ہمارے نئے آنیوالے صحافیوں کیلئے سبق آموز بھی ہوں گے۔یقیناان باتوں سے نئے صحافی راہنمائی حاصل کر سکیں گے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی ادارہ یا منصوبہ ہو اسے کامیابی کی منازل تک پہنچانے کیلئے سرمائے کے ساتھ ساتھ اچھی ٹیم ورک کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔بلاشبہ اس حوالے سے ادارے کے چیف ایگزیکٹو علی احمد ڈھلوں جو میرے باس،بڑے بھائی، بہترین دوست اور استاد بھی ہیں انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوںکہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی انہوں نے ہمت اور صبر کا دامن نہ چھوڑا ۔میں ذاتی طور پر اس بات کا گواہ ہوں کہ ادارے کو قائم رکھنے کیلئے انہوں نے اپنی متعدد جائیدادیں فروخت کیں۔ بے پناہ نقصان برداست کیا لیکن اخبار کی اشاعت میں کبھی کوئی رکاوٹ نہ آنے دی۔ان کی ایک خاص کوالٹی یہ رہی ہے کہ پریشان کن صورتحال کے باجود میں نے آج تک ان کے چہرے پر کبھی پریشانی نہ دیکھی (ماشاءاللہ)
انکے ایک خاص حوصلے کی بھی داد دونگا کہ اخبار کی اشاعت سے آج تک انہوں نے مجھے بھی برداشت کیا ۔میری کمی کوتاہیوں کو نظر انداز کر کے میرے سرپر ہمیشہ شفقت بھرا ہاتھ رکھا۔ناصرف میرے ساتھ بلکہ اس ادارے سے وابستہ ہر بندے کے ساتھ انکا ہمیشہ محبت بھرا رویہ رہا۔روزنامہ”لیڈر“سے وابستہ جو لوگ کسی بھی دوسرے ادارے میں جا چکے ہیں۔تاہم انکا آج تک جناب علی احمد ڈھلوں کے ساتھ نا صرف رابطہ بلکہ محبت بھرا تعلق قائم ہے۔
زندگی کے متعدد نشیب وفراز کاجناب علی احمد ڈھلوں کے ساتھ ملکر سامنا کیا۔انہوں نے ہمیشہ جرا ¿ت وبہادری کے ساتھ ہر قسم کے حالات کا نا صرف مقابلہ کیا بلکہ ہمارا حوصلہ بھی بڑھایا۔اس بات میں کوئی شک نہیں انکے مشورے کے بغیر زندگی میں جو قدم اٹھائے ان میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ جو قدم ان کا مشورہ حاصل کرکے اٹھایا اس میں ناقابل یقین کامیابیاں حاصل کیں ۔جہاں تک ٹیم ورک کا تعلق ہے تو میں اپنے ان سب ساتھیوں دوستوں ،سینئر وجونیئرز کا ذکر کرونگا جن کے ساتھ اور محنت نے روزنامہ”لیڈر“کو کامیابی کی منازل کی طرف بڑھایا ان میں سے چند ساتھی اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اللہ پاک انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاءکرے(آمین)۔ان کی کمی کو آج تک محسوس کیا جاتا ہے۔ان میں ہمارے ڈائریکٹر چوہدری ریاض ،رانا جاوید قدیر،اطہر عارف ،تنویر عباس نقوی،شوکت ساجد، فیض رسول بھٹی،احسان الحق اظہر،حافظ ظہیر،سہیل ملک، محمود باری،شمیم صدیقی ،اعجاز سندھو،عابد چوہدری،ملک عبدالرحیم ،میاں طارق ‘نعیم شہزاد‘واجد ڈار‘حاجی شفیق (نیوزایجنٹ)نمایاں ہیں
جبکہ جو ساتھی آج ہمارے ادارے میں نہیں ہیں لیکن انکے ساتھ خاصا اچھا وقت گزرا اور انکی نمایاں خدمات رہیں ان میں کاظم خاں،امجد عثمانی،رانا ابرار، شاہد حسین ،میاں ہارون،سردار عامر خورشید،حاجی جاوید،حاجی نسیم، حاجی نعیم،شہباز یونس،سردار اعجاز‘ سردار شہباز وارثی،رضا مغل،سید مشرف شاہ،سرور صدیقی ،راحیل سید،عمران ملک،رانا خالد قمر،شیراز نثار، فیصل بٹ،سدھیر چوہدری، زیڈ اے مدنی،علی جعفری، نفیس قادری،ذوالفقار شاہ،ایس اے رضا، نواب مقبول، شاہنواز خان،ذیشان الحق،شہزاد احمد، سرفراز احمد،شہزاد ملک،عیبر بٹ،ریاض ٹاک، نعیم جان،احسان الحق،پرویز شفیع،رانا کامران صفدر، رابرٹ بارلو،فراز علی نازش ،نوشین نقوی،صبا ممتاز بانو،جاوید یوسف،رانا ثناءاللہ ساجد،اسد الرحمن، طارق شاہ،محمد عاصم بٹ،علی اسلم، عامر علی، جمشید، سلمان قریشی،انورحسین سمرا،راناخالد قمر،عامر رانا‘ آصف بٹ ‘عامر بٹ ‘عباس رشید بٹ،بخت دگیر چوہدری‘ یاسرشمعون، فراز قصوری ،عمر افتخار،حافظ ذیشان رشید،چوہدری ذوالفقارعلی‘چوہدری ممتاز‘ ریحان منیر زبیری،روزینہ کنول‘مونالیزا،شاہ نواز رانا قابل ذکر ہیںجبکہ جن ساتھیوں کا نام رہ گیا ہے اُن سے معذرت خواہ ہوں۔یہاں میں جناب آفتاب احمد ڈھلوں اور سینئر صحافی جناب محسن گورائیہ کا خصوصی ذکر کرونگا جو آج تک ہماری ناصرف سرپرستی کر رہے ہیں بلکہ قدم قدم پر ہمارے حوصلے بڑھانے کا سبب بنے۔
میں لاہور پریس کلب کے صدر جناب ارشد انصاری،سینئر صحافی جاوید فاروقی،اقبال چوہدری کا بھی خصوصی شکر گزار ہوں جو آج بھی ہمارے ساتھ کھڑے ہیں ہماری ایک آواز پر ہمارے شانہ بشانہ ہوتے ہیں۔ہمارے وہ ساتھی جو آج تک ہمارے ساتھ ہیں ان میں راناطاہر اشفاق ،میاں طاہر انور ،حافظ طارق عزیز ،علامہ صدیق اظہر ،چوہدری اسلم، ملک کاشف محمود،خضر حیات،رانا ندیم قاسم، عرفان جٹ،محمد زین،ملک محمود اعوان ،امجد علی کمبوہ،قدوس منہاس،محمد علی،علی اصغر ،راشد کمبوہ،عینی فیصل، حمیرا بائیکر ،گل رعنا،طاہر چوہدری ،محمد منشاءحاکم ،سجادعلی بھنڈر،میاں ہارون،شاہد لطیف ہاشمی،منیب الحق، لالہ نور خیال،محمد ندیم شیخ،محمد ندیم، ابوہریرہ،رباب شاہ ،وسیم راجہ ، ظہیرالدین بابر(فارورڈنگ ایجنٹ) شامل ہیں۔میں اپنے تمام بیوروچیفس اور نمائندگان کا بھی تہہ دل سے شکر گزار ہوں ۔جنہوں نے ادارے کیلئے اپنی خدمات جاری رکھی ہوئی ہیں آخر میں اپنے قارئین سے خصوصی التماس ہے کہ ہم سب کی اماں اور پیاری دوست سمعیہ اعجاز صاحبہ کی صحت کیلئے خصوصی دعا کریں۔جنہوں نے نا صرف اس ادارے کیلئے اپنی بہترین خدمات دیں بلکہ بہت محنت کی۔آج کل اپنی صحت کی خرابی کی وجہ سے گھر پر ہیں۔(خرم پاشا)۔۔