تحریر: اظہر سید۔۔
رفتار ڈیجیٹل کے جس صحافی کو پیکا ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے یہ صحافی تھا ہی نہیں بلکہ اڑن طشتری تھا۔اس شخص نے کبھی کسی میڈیا ہاؤس میں بطور سب ایڈیٹر یا رپورٹر کام نہیں کیا تھا کسی وسیلے سے اچانک ایک میڈیا ہاؤس میں بطور ڈائریکٹر بٹھا دیا گیا ۔ یہ وہ تاریک دور تھا جب میر شکیل الرحمن کو ٹھگنا چیف جسٹس گروپ کے آڈٹ کی دھمکیاں دے کر نوسر باز کے سامنے جھکنے پر مجبور کرتا تھا اور جیل میں بند میر شکیل الرحمن کی ضمانت نہیں ہوتی تھی ۔ففتھ جنریشن وار کے نام پر بہت سارے نامعلوم چھوٹے نوازے گئے ان میں صابر شاکر ،غلام حسین کباڑیا ،عمران ریاض اور یہ نمونہ جس کا نام فرحان ملک ہے بھی شامل تھا۔
سما میں اس کا اصل کام جامعات میں میڈیا اسٹڈی کے ڈگری پروگراموں میں مداخلت کرنا،طالبات کو انٹرن شپ کے نام پر گھیرنا،روک لگانے والے پروفیسروں کو ہراسگی کے الزامات پر بدنام کرنا تھا ۔اس وقت مختلف جامعات کی طرف سے پمرا میں اس بلیک میلر کے خلاف متعدد شکایات بھی درج ہوئیں اور عدالتوں میں بھی بعض پروفیسر نے اس کے خلاف درخواستیں دیں ۔
مالکوں کو ہوش آیا تو بہت سارے دوسرے باغیوں کی طرح یہ بھی باغی ہو گیا ۔ویوز کے لئے نوسر باز کی حمائت میں پراپیگنڈہ مہم چلانے لگا ۔
عدلیہ میں چونکہ نوسر باز کا حمایتی بہت بڑا انفراسٹرکچر موجود تھا اس لئے یہ مسلسل دندناتا رہا ۔ائینی ترامیم کے زریعے ججوں کو آئینی دائرہ کار میں لانے اور پیکا ایکٹ کے بعد اب ان سانپوں پر ہاتھ ڈالنے کا آغاز ہوا ہے ۔یہ ابتدا ہے اب ریاست سافٹ نہیں ہارڈ اسٹیٹ کی طرح ردعمل دے گی ۔ہنی مون ختم ہو گیا ہے ۔یہ صحافی نہیں بلکہ اڑن طشتریاں ہیں جنہیں اب پکڑا جائے گا۔(اظہر سید)
(اس تحریرکے مندرجات سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)