ایڈووکیٹ شعیب شاہین نے جبری گمشدگیوں اور لاپتا افراد سے متعلق کیس کی سماعت میں عدالت کو بتایا کہ عمران ریاض نے کہا ہے سپریم کورٹ بلائے گی توثبوت دوں گا۔تفصیلات کے مطابق جبری گمشدگیوں اور لاپتا افراد سے متعلق سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ کیس کی سماعت کی۔سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں کہ کون دلائل دیں گے، شعیب شاہین کریں یا لطیف کھوسہ ہمیں کوئی مسئلہ نہیں، آپ جو پڑھ رہے ہیں وہ لاپتہ افراد سےمتعلق آرڈر نہیں ہے۔چیف جسٹس نے شعیب شاہین سے مکالمے میں کہا کہ حیران ہوں کہ آپ دھرنا کیس کا حوالہ دےرہےہیں ، جس پر شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ میں ہمیشہ حوالہ دیتاہوں،عملدرآمد ہوتا تو یہ دن نہ دیکھناپڑتا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کل آپ مطیع اللہ کیس کی بات نہیں کررہے تھے آج کررہےہیں، کیا سابقہ حکومت نے مطیع اللہ کیس میں ذمہ داری قبول کی تھی؟شعیب شاہین نے بتایا کہ سابقہ حکومت کی مداخلت کی وجہ سے ہی جلدی بازیاب ہوئےتھے، جس پر چیف جسٹس نے شعیب شاہین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شعیب شاہین صاحب یہ شاید آپ کی غلط فہمی ہے،آپ تو اس معاملے میں پھنس گئے تھے، افسوس ہے آپ کی حکومت نےکسی ایک کیخلاف کارروائی نہ کی، یا ڈر لیں یا حکومت چلالیں، یہ صرف دو منٹ کا کیس تھا، کوئی ایک آرڈر دکھائیں اگر کسی کیخلاف بھی کارروائی کی گئی ہو۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ نہیں ایسا نہیں، یہ آپ کی غلط فہمی ہو سکتی ہے۔ مطیع اللہ جان واقعے کی ویڈیو ریکارڈ ہو گئی تھی جس پر انہیں رہا کرنا پڑا۔ مطیع اللہ جان کیس ایک ریکارڈڈ دستاویزی کیس تھا۔ایڈووکیٹ شعیب شاہین نے عدالت میں بیان دیا کہ عمران ریاض نے کل کال کی اور کہا سپریم کورٹ بلائے گی اورسیکیورٹی دے گی تو ثبوت فراہم کروں گا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کیا ہمارے پاس فوج کھڑی ہے کہ ہم پروٹیکشن دیں گے،الزام وہ لگارہےہیں، ثبوت ہیں تو جائیں ایف آئی آر کاٹیں،ہم نے ان کو بلانا چاہتے ہیں اور نہ ان کا نام استعمال کررہے ہیں۔شعیب شاہین نے مزید کہا کہ عمران ریاض سپریم کورٹ آنے کیلئے سیکیورٹی مانگ رہےہیں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ صرف دو چار بندوں پر بات کرینگے تو یہ سیاسی کیس بن جائے گا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں پہلے آج جو معاملات ہورہےہیں ان کو روکا جائے، اگرآج لوگوں کو اٹھانا کم ہوجائے تو صرف پرانے کیسز رہ جائیں گے ، کیا آپ حکومت کی طرف سے بول سکتے ہیں آج کے بعد کسی کو نہیں اٹھایا جائے گا،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی میں بالکل یہ کہہ سکتاہوں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ اگر آپ یہ کہہ رہےہیں اور کل کسی کو اٹھایا گیا تو اس کے نتائج ہوں گے، ہمیں کسی شخص نہیں بلکہ حکومت پاکستان کی یقین دہانی چاہتے ہیں، یہ ملک اندر سے فریکچر ہوچکا ہے اس کی ایک وجہ جمہوریت کے پٹری سے ڈی ریل ہونا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بلوچستان کے مسنگ پرسن کا معاملہ اور کےپی کا معاملہ الگ الگ ہے ، لوگوں کو مذہبی اور لسانی بنیاد پر بھی قتل کیاجارہاہے ، مستونگ میں زیارت کیلئے ایران جانیوالے 32لوگوں کوبھی قتل کیاگیا ، یہ کیا ذہنیت ہے ان کو کسی کا خوف وڈر نہیں ، ابھی تو قانون سے بچ جائیں گے ان کو آخرت کا خوف نہیں، سٹیٹ کو بھی یہ مائنڈ سیٹ چینج کرنا ہوگا۔