shartiya meetha | Imran Junior

عزت کا فالودہ

علی عمران جونیئر

دوستو،اگر آپ اپنے موبائل فون میں موسم کا حال جاننے والی ایپ کھولتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہاں لکھا ہوتا ہے کہ چالیس ڈگری سینٹی گریڈ ٹمپریچر ہے،ساتھ ہی لکھا ہوتا ہے 49C feel like۔ اس کا کیا مطلب ہوا؟یہ منطق کبھی ہماری سمجھ دانی میں فٹ نہ آسکی، چنانچہ ایک دن تھوڑی سے ہمت کو یکجا کرکے باباجی سے پوچھ لیا۔۔ٹمپریچر دیکھو تو ”فیلز لائک” کا کیا مطلب ہوتا ہے؟؟ باباجی نے بڑی آسانی سے سیکنڈوں میں ہمیں اس کا مطلب سمجھا دیا۔کہنے لگے،مثال کے طور پر آپ کی اپنے والد صاحب سے کسی بات پربے عزتی ہورہی ہو اور اوپرسے کوئی رشتہ دار آجائے،تو ہونے والی بے عزتی کا تناسب تو وہی رہے گا مگر اسے محسوس کرنے کی شدت بڑھ جائے گی۔یعنی کراچی والوں کی زبان میں عزت کا فالودہ نکل جائے گا۔
دکاندار نے جب خاتون سے پوچھا کہ۔۔ کیسا سوٹ دکھاؤں؟؟؟خاتون نے برجستہ کہا۔۔ایسا کہ پڑوسن دیکھے تو جل کے راکھ ہو جائے۔۔ہمارے پیارے دوست نے ایک دن بڑا عجیب سوال ہم سے کیا، کہنے لگے۔ بجلی مرد نے ایجاد کی، ٹیلی فون مرد نے بنایا، گاڑی نے مرد نے ایجاد کی، جہاز مرد نے بنایا،پھر یہ لڑکیاں امتحانوں میں ننانوے فیصد نمبرزحاصل کرکے کرتی کیا ہیں؟؟باباجی سے جب ہم نے پوچھا کہ اچھے اور برے دوست میں فرق کیسے کریں؟باباجی نے جیب سے ماچس کی ڈبیا نکالی اس میں سے دو تیلیاں نکالیں ایک کو پھینک دیا اور دوسری تیلی کے دو ٹکڑے کئیے اس کا بھی اوپر والا حصہ پھینک دیا اور نیچے والا کان میں پھیرتے ہوئے جواب دیا ۔۔پتر مینوں نئی پتہ۔۔باباجی ایک دن ہمیں اپنے بیتے دنوں کا قصہ سنارہے تھے کہنے لگے۔۔ہمارے دوستوں میں اکثریت خان صاحبوں کی ہے۔ ہمارے ایک دوست حاجی عصمت خان قالین اور دریوں کی خرید و فروخت کا کام کرتے ہیں،ایک دن انہوں نے مجھے اپنی نئی دکان کے لئے اچھا سا نام تجویز کرنے کو کہا۔۔ہم نے کافی کافی غور و خوض کے بعد نام تجویز کیا۔۔ ”عصمت دری ہاؤس!”حاجی صاحب اب ہمارا فون تک نہیں سنتے۔۔ہمارے ایک اور دوست بنارس کالونی کے خان صاحب ہیں، نام ہے ان کا عزت خان۔۔ موسم گرما میں انہوں نے آئس کریم اور فالودے کی دکان کیلئے نام تجویز کرنے کا کہا۔۔ہم نے انہیں کہا۔۔”عزت کا فالودہ” رکھ لیں۔تب سے اب تک ان کی شکل دیکھنے کو ترس گئے ہیں۔۔
باباجی بتارہے تھے کہ ایک ہفتے سے جس لڑکی سے فیس بک پے چیٹنگ چل رہی تھی آج اس کا جان لیوا میسج آیا ۔۔جس میں لکھا تھا، آپ کے پیار جذبات اور رومینٹک باتوں کے آگے میں سب کچھ ہار کے بس اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں،اگر آپ کے پاس پلاسٹک سرجری کے پیسے ہیں تو میں آپ کے لیے لڑکی بننے کو تیار ہوں۔۔شادی کے بعد خاوند نے تھوڑے رومینٹک انداز میں اپنی خوبصورت بیوی سے پوچھا کہ شادی سے پہلے جو میں تم سے باتیں کیا کرتا تھاان میں سے کو ن کون سی باتیں اب تمھیں سچی لگتی ہیں؟؟بیوی شرماتے ہوئے بولی۔۔ وہی جو آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ۔۔ جمیلہ میں تیرے قابل نہیں۔۔معروف مزاحیہ شاعر ضمیر جعفری کو ان کا کوئی دوست بتارہا تھا کہ ۔۔میرے خیال میں بوڑھے عاشق میں تین خوبیاں ایسی ہوتی ہیں جو کسی جوان میں ہو ہی نہیں سکتیں۔اول بے ضرر و بے طلب ہوتا ہے۔دوم باوفا ہوتا ہے۔ جانتے بوجھتے جس شدت و یکسوئی سے وہ باؤلا ہوتا ہے وہ کسی جوان کے بس کا روگ نہیں۔ضمیر جعفری بولے۔چوتھی خوبی تو آپ بھول ہی گئے۔جلدی مر جاتا ہے۔
ہمارے پیارے دوست ہمیں بتارہے تھے کہ ۔۔شادی ہال میں داخل ہوتے ہی میں ایک ٹیبل پر بیٹھ گیا۔دروازے بند اور ہال میں لوگوں کے ہجوم سے گرمی محسوس ہورہی تھی اور میرے سر پر گرم ٹوپی کی وجہ سے سر میں خارش ہونے لگی تو میں نے ٹوپی اتار کر سائیڈ پر رکھ دی اورٹنڈ پر خارش کرنے لگا۔ اب میرے پچھلے ٹیبل پر بیٹھی خواتین جو کافی دیر سے چغل خوری میں مصروف تھیں میری ٹنڈ دیکھتے ہی ان میں سے ایک کہنے لگی ۔۔اتنی سردی میں ٹنڈ کروانے کی کیا سوجھی تھی اس کو بھلا۔۔دوسری بولی، کوئی نیا فیشن آیا ہوگا ۔۔تیسری بولی، آج کل کی نوجوان نسل بھی اس کالے منہ والے یو یو ہنی سنگھ کی کاپی کرتے ہیں، اپنے دین سے تو کوئی سروکار ہی نہیں ان کو ،یہ سب ماں باپ کا قصور ہے جو اپنے بچوں پر توجہ نہیں دیتے۔۔ایک اور خاتون نے درمیان میں لقمہ دیا۔۔مجھے تو لگتا اس کے سر میں الرجی ہوگی ہونی اس وجہ سے ٹنڈ کروا کر پھر رہا بیچارہ ۔۔اب ان کی باتیں مجھ سے برداشت نہیں ہورہی تھی تو میں نے پیچھے کو مڑتے ہوئے کہا ۔۔آپ نے کبھی سعودی عرب کا نام سنا ہے ،وہی جہاں آپ سب کا ہیڈماسٹرشیطان رہتا ہے ۔جس کو ہر سال حج کے دنوں میں حاجی کنکریاں مارتے ہیں ،وہی جو آپ کے دماغ میں بیٹھا ہوا ہے اور آپ کو سب رشتے داروں کی چغلیاں کرنے کے بعد مجھ پر لیکچر دینے پر اکسا رہا ہے ،میں اُسی ملک گیا تھا اور عمرہ کرنے کے بعد ٹنڈ کروائی ہے۔۔حج اور عمرے کی بات چل نکلی ہے تو ایک حاجی صاحب اپنے کسی انگریز دوست کے ساتھ اس کے گھر گئے،دوست گھر میں داخل ہوا تو ایک ہنستی مسکراتی ہوئی زوجہ نے استقبال کیا،انگریز دوست نے زوجہ محترمہ کو گلے لگایا اور پھر حاجی صاحب کو ساتھ لے کر ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے حاجی صاحب کو یہ چھوٹا سا گھریلو رواج بہت اچھا لگا،خوش کن لمحات اور چائے وغیرہ کے بعد حاجی صاحب واپس اپنے گھر کو لوٹے گھنٹی بجائی اور وہی انگریز کا سین ذہن میں دہرا رہے تھے کہ کیسے اس نے اور بیگم نے ایک دوسرے کو گلے لگا کر استقبال کیا۔ابھی وہ اپنے انگریز دوست کے متعلق سوچ ہی رہے تھے کہ حاجی صاحب کی بھاری بھر کم بیگم نے دروازہ کھولا، حاجی صاحب نے توقف کیا اور مسکراہٹ کا انتظار فرمایا لیکن جب کوئی جواب نہ ملا تو کچھ سیکنڈز کے بعد بغیر مسکراہٹ کے خود ہی حاجی صاحب نے اپنی بیگم صاحبہ کو گلے لگا لیا۔یہ دیکھ کر بیگم صاحبہ غش کھا کر گرنے لگیں اور بمشکل رونے کو کنٹرول کر کے کہا۔۔میرا دِل بیٹھا جا ریا اے حاجی صاحب مینوں جلدی دسو کون مر گیا اے اج!!!
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ ایک سچا دوست وہ ہے جو تب آپ کے دروازے پر دستک دیتا ہے جب دوسرے چھوڑ کے جارہے ہوں۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں