sarkari tv or zahoor ahmed

عرفان صدیقی کا گمشدہ بل۔۔

تحریر: منصور آفاق۔۔

جمہوریت کی تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔چیزوں کی گمشدگی میں بھی ایسی کوئی مثال نہیںملتی۔ہم نے ہر چیز گم ہوتے دیکھی ہے مگر کبھی کہیں کوئی قانون اس انداز میں گم نہیں ہوا۔ ایک بل جو قومی اسمبلی اور سینٹ سے پاس ہو گیا تھا ۔یعنی قانون بن گیاتھا۔اس معاملہ میں صدر پاکستان کے دستخط تو ایک خوبصورت روایت کی طرح ہیںمگر وہ نہیں ہوسکے۔اس مسئلہ میں میرے بزرگ دوست سینیٹرعرفان صدیقی کا ایک میسج مجھے ملا۔ میں اسے حرف بحرف آپ کی خدمت میںپیش کررہا ہوں کہ یہ کیسی جمہوریت ہے۔ یہ کیا نظام ہے۔وہ کہتے ہیں۔’’معاملہ یہ ہے کہ جب 2019ءمیں عمران خان صاحب کے دور میں مجھے آدھی رات کو گھر سے اٹھایاگیا، کوئی دس ڈالے آئے اور مجھے اٹھا کر لے گئے جیسے میں کوئی دہشت گرد ہوں، تھانے کے حوالات میں ڈال دیا اور اگلے دن صبح مجھے اٹھایا، ہتھکڑی لگائی اور ایک وین میں ڈال کر پہلے شہر بھر گھماتے رہے اور بالآخر ایک عدالت میں لے گئے۔جہاںکوئی اسسٹنٹ کمشنر خاتون جوڈیشل مجسٹریٹ کے طور پر کام کر رہی تھیں، مجھے اس کے سامنے پیش کیاگیا۔ رات چونکہ ٹی وی پر باتیں چل پڑی تھیں، اس لئے کچھ وکلا بھی آ گئے۔ انہوں نے بھرپور کوشش کی کہ معاملہ یہیں ختم ہوجائے کیونکہ وہ کوئی کیس تو تھا ہی نہیں مگر اس نے کہا نہیں، چودہ دن کے لیے ان کو جیل بھیج دو۔ میں جیل چلا گیا۔ جیل میں جو ہوا وہ ایک الگ کہانی ہے۔

میں یہ سوچتا رہا کہ 17گریڈ کی ایک بچی جو ابھی ابھی سی ایس ایس کر کے آئی ہو گی، یہ جج بن کے بیٹھ گئی ہے۔ غلط کیس بھی مجھ پر ڈپٹی کمشنرنے بنایا ہے،بھلا اس کی ایک ماتحت کیسے منصفی کی جرات کرسکتی ہے۔یہ کس طرح ہم کہہ رہے ہیں کہ عدلیہ الگ ہوگی اور انتظامیہ الگ ہوگی۔وہ کیا ہوا۔73کا آئین کہاں گیا۔میں رہا ہو کر جب سینیٹ میں آیا تو میں نے اس کالے قانون کو بدلنے کی کوشش شروع کر دی۔ پی ٹی آئی کا دور تھا۔ہم ایک بل تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔جس میں میرے ساتھ پی ٹی آئی کے علی ظفر ، پیپلزپارٹی کے کافی لوگ تھے، فاروق نائیک تھے، شہادت اعوان تھے، رضا ربانی تھے، اعظم نذیرتارڑ بھی تھے ۔ بل کا مقصد یہ تھا کہ آئین کی شق 3-175کے مطابق انتظامیہ کا عدالتی فرائض سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔جب میں نے بل سینیٹ میں پیش کیا۔ علی محمد خان ہاؤس میں تھے ۔ انہوں نے کہا ۔ہمیں اس بل کے بارے میں کچھ تحفظات ہیں لیکن چونکہ استاد گرامی نے پیش کیا ہے لہٰذا ہم اس پہ کوئی اعتراض نہیں کرتے تو اس کو متعلقہ کمیٹی میں مکمل جانچ پڑتال کے لیے بھیج دیا جائے۔یہ کمیٹی وزارت داخلہ کی تھی ۔وہاں پرایک میراتھن میٹنگ ہوئی۔ میں نے نہیں دیکھا کہ کبھی کسی بل کیلئے کوئی اتنی بڑی میٹنگ ہوئی ہو، وکلا تھے، ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن تھی۔ مجھے خاص طور پر بلایا چونکہ آپ کا بل ہے تو آپ لیڈ کریں۔ اس وقت کے وزیر داخلہ شیخ رشید بھی آئے ہوئے تھے۔ بھرپورڈسکشن کے بعد کمیٹی کے چیئرمین نے کہاکہ بل آئین کے مطابق ہے۔ اس میں ایک دوہماری تجاویز ہیں، وہ کر لی جائیں، ہم نے وہ کر لیں۔ کمیٹی نے اتفاق رائے سے بل اپروو کر دیا۔ بل جب واپس سینیٹ میں آیا اور اس پر بات ہوئی ۔ کسی نے مخالفت نہیں کی۔ پھر طریقہ کار کے مطابق یہ بل نیشنل اسمبلی میں بھیج دیا گیا۔وہاں بھی کسی نے مخالفت نہیںکی، وہاں سے بھی پاس ہوگیااورایوانِ صدرتوثیق کیلئے بھیج دیا گیا ۔بل وزیر اعظم ہائوس کے تھروایوان صدرجایا کرتے ہیں ۔اس سلسلے میں و زیر اعظم ہائوس کا کردار ایک ڈاک خانہ کا ہوتاہے مگر یہ بل صدرہائوس تک نہیں پہنچا۔ڈاکخانہ میں ہی کہیں گم کردیا گیا۔ ایک دو ماہ بعدجب میں نے واویلا کیا تو صدر عارف علوی کے ترجمان کی طرف سے وضا حت آئی کہ یہ بل ہم تک نہیں پہنچا۔ مجھے یقین ہے کہ ابھی تک یہ بل کم از کم ایوان صدر نہیں گیا۔ میں نے پھر آواز اٹھائی، لوگوں نے بھی میری مدد کی، خود جا کے نیشنل اسمبلی کے افسران سے میٹنگ کی، ان سے پوچھا کہ چودہ ماہ سے آپ کاکوئی جواب نہیں آیا، آپ نے کوئی ریمائنڈر بھیجا؟آپ نے کسی سے پوچھا کہ وہ بل کہاں گیا۔ بہر حال وہ آج تک نہیں مل سکا۔ اور جب انہیں ان آفیشلی کہا جائے تو کہتے ہیں جن کی پاورز آپ نے کاٹنے کی کوشش کی ہے کہ وہ جج بن کے نہ بیٹھیں،وہ بہت پاور فل ہیں انہوںنے ہی بل کہیں دبا لیا ہے۔ اب اس کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ چاروں صوبوں میں یہ قانون نافذہے۔ وہاں یہ جو ایڈمنسٹریشن کے لوگ ہیں، وہ جوڈیشل پاور ایکسرسائز نہیں کر سکتے، صرف اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری ہے جہاں یہ انگریز کا ظالمانہ قانون موجودہے ۔انگریز کا، 1898ءکا بنا ہوا یہ قانون اب تک برقرار ہے۔ اگر میں پنڈی میں ہوتا تو مجھے یہ گرفتار نہیں کرسکتے تھے، نہ وہ خاتون فیصلہ کر سکتی تھی۔ یہ ظلم ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ آپ کے قلم میں ایک فورس بھی ہوتی ہے اور توازن بھی ہوتا ہے، کبھی وقت ملے تو ضرور اس فریضہ ِحق کا اہتمام فرمائیے گا۔‘‘جہاں ملک کے قانون ساز اداروں کیساتھ ایسا کھلواڑ ہورہا ہو ۔ وہاں کونسا قانون اور کونسا آئین ۔جمہوریت کو سیاست دانوں نے خود مذاق بنالیا ہے ۔چودہ ماہ میں سینیٹر عرفان صدیقی اپنا گمشدہ بل تلاش نہیں کراسکے جب کہ حکومت بھی ان کی اپنی پارٹی کی تھی ۔کسی اورکو کہاں سے انصاف مل سکے گا۔دور دور تک روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ دیکھتے ہیں نگراں حکومت الیکشن کرانے میں کا میاب ہوتی ہے یا نہیں ۔یا ایک مرتبہ پھر آئین کی دھجیاں گلی کوچوں میں اڑاتی ہوئی دکھائی دیں گی۔میرے خیال میں تو اس ملک کیلئے کسی نئے نظام کی ضرورت ہے۔(بشکریہ جنگ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں