صحافی کے دشمن

تحریر: محمد وقار بھٹی

کچھ اچھے انویسٹیگیٹو جرنلسٹس اور صحافیوں کے یقیناً چند دشمن ہوں گے، لیکن مجھ سمیت زیادہ تر صحافیوں کے دشمن ایسے ہوتے ہیں جن کا نہ انہیں خود اندازہ ہوتا ہے، نہ ان کے اردگرد موجود لوگوں کو اس کی خبر ہوتی ہے۔ایک صحافی کا سب سے پہلا دشمن وہ خود ہوتا ہے — اور یہ میں ایک ذاتی مثال سے واضح کرتا ہوں۔

چند سال قبل ایک بڑے ٹی وی چینل میں نیا آنے والا ہیلتھ رپورٹر مجھ سے رابطے میں آیا۔ تھوڑا مکھن لگایا اور کہا کہ وہ چاہتا ہے میں اس کی رہنمائی کروں، جیسی خبریں میں فائل کرتا ہوں ویسی ہی وہ بھی دینا چاہتا ہے۔میں نے اسے کراچی پریس کلب بلایا، چائے پلائی، اور اپنے تجربات کا نچوڑ اس کے سامنے رکھ دیا۔ کہا کہ اگر صحت کی رپورٹنگ کرنی ہے تو علم حاصل کرو، کچھ پڑھو، کانفرنسز میں شرکت کرو، وہاں اسٹوری آئیڈیاز ملتے ہیں۔ مجھ سے مشورہ لے لیا کرو، اور جہاں ضرورت ہو، متعلقہ ماہرین سے رابطہ بھی کروا دوں گا۔اس نے شکریہ ادا کیا اور چلا گیا۔ چند دن بعد ایک سینئر ہیلتھ رپورٹر نے پوچھا کہ آپ نے اس نئے رپورٹر سے کیا بات کی تھی؟ میں نے حیران ہو کر پوچھا، کیوں؟ تو وہ کہنے لگے کہ وہ سب کے سامنے گالیاں دے رہا تھا اور کہہ رہا تھا: “میں نے خبریں مانگی تھیں، اس نے آگے سے لیکچر دے کر چلتا کیا!

اب مسئلہ یہ ہے کہ خواہ رپورٹر ہیلتھ بیٹ کا ہو یا اکنامکس یا فنانس کا، اکثریت نہ کچھ سیکھنا چاہتی ہے، نہ محنت کرنا چاہتی ہے۔ بس خواہش یہ ہے کہ بغیر کچھ جانے مانے انہیں ملک کا سب سے بڑا صحافی مانا جائے۔

اب جب بندے کو آتا جاتا کچھ نہ ہو تو کون منہ لگائے گا؟ کون خبر دے گا؟ اور کون عزت و احترام بخشے گا؟

دوسرا دشمن ہے: حسد اور جلن۔

میری صحافتی زندگی کا آغاز پی پی آئی نیوز ایجنسی سے ہوا۔ چند سال میں میری خبریں ملک بھر کے اخبارات میں چھپنے لگیں، اور میں نے خود کو “طرم خان” سمجھنا شروع کر دیا۔میرے سامنے میرے ہی کولیگز مختلف بڑے اداروں میں نوکریاں حاصل کرتے گئے، اور میں بس انہیں دیکھ کر کڑھتا رہا۔ اگر کسی دوست یا جاننے والے کی بات ہوتی، تو میرا پسندیدہ جملہ ہوتا: “اسے آتا ہی کیا ہے جو جیو یا ڈان میں چلا گیا!تب کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ مجھے خود کیا آتا ہے، جو دوسروں پر تبصرے کر رہا ہوں۔ وقت گزرا، اور کافی دیر بعد یہ بات سمجھ آئی کہ مولانا! کسی کو کیا آتا ہے، یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔ تمہارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ “تمہیں کیا آتا ہے اور کیا نہیں آتا۔”جب اپنے دامن پر نگاہ ڈالی تو تہی دامانی کا شدید احساس ہوا۔ اب یہ حالت ہے کہ نہ کسی پر تنقید کرتا ہوں، نہ کسی سے حسد۔ کسی کو کیا آتا ہے، اب یہ میرا مسئلہ ہی نہیں رہا۔

ایک اور بڑا مسئلہ ہے “متبادل ذریعہ آمدن” کا نہ ہونا۔

صحافتی اداروں سے باہر کے لوگ نہیں جانتے کہ کئی بڑے صحافی، جن کے نام اخباروں یا ٹی وی پر چلتے ہیں، وہ اصل میں اتنے نہیں کما پاتے جتنا ایک چنے بیچنے والا یا کلفیاں بیچنے والا کما لیتا ہے۔ 90 فیصد صحافی آج بھی وہی تنخواہیں لے رہے ہیں جن پر کئی سال پہلے بھرتی ہوئے تھے۔ اکثر ادارے دو، دو تین، تین مہینے تک تنخواہیں نہیں دیتے۔ نہ کوئی بونس، نہ پنشن، نہ گریجویٹی۔ ڈیلی ویجز پر کام کرتے ہوئے پوری زندگی گزر جاتی ہے۔ کیونکہ اکثر صحافیوں کے لیے یہ پیشہ ذریعہ معاش نہیں بلکہ ایک شدید نشہ بن چکا ہے۔

ایسے میں اگر کوئی صحافی کوئی متبادل ذریعہ آمدن تلاش کر لیتا ہے، تو اس کے آس پاس موجود کولیگز اور دوست اس پر طنز کے تیر چلانے لگتے ہیں۔ زندگی اجیرن بنا دیتے ہیں۔

جیسے فلم “تھری ایڈیٹس” میں کہا گیا تھا:دوست فیل ہو جائے تو دکھ ہوتا ہے، لیکن اگر فرسٹ آ جائے تو بہت دکھ ہوتا ہے۔

یہی حال کامیاب صحافی کے کولیگز کا ہوتا ہے۔ اور اگر متبادل آمدن نہ ہو تو صحافی یا تو فاقہ کشی پر مجبور ہو جاتا ہے یا خودکشی پر۔

ایسے حالات میں حاصل کلام یہی ہے:اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کریں، حسد اور جلن سے بچیں، اور جلد از جلد کوئی متبادل ذریعہ آمدن تلاش کریں تاکہ باعزت اور باوقار زندگی گزار سکیں۔(وقار بھٹی)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں