peca qanoon badtareen shakal mei

صحافی اور صحافت چمک کا شکار

تحریر: مظہر عباس۔۔

پابندیاں مسائل کا حل نہیں یہ خود ایک مسئلہ ہیں، دور آمرانہ ہو یا نام نہاد جمہوری۔ پابندیاں ہمیشہ افواہوں، فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن کو جنم دیتی ہیں۔ پھر کہتے ہیں ’ڈس انفارمیشن‘ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

جب سرکاری اور اب تو خاصی حد تک نجی میڈیا بھی اپنی ساکھ کھو رہا ہو ہے لوگ پھر ہر اس بات پر یقین کر لیتے ہیں جو ہر طرح کی ’پابندیوں‘ سے آزاد ہو۔ بدقسمتی سے یہ ہماری تاریخ ہے کہ ہم نے ہر دور میں آزادی اظہار اور شہری آزادیوں پر پابندیاں لگائیں۔ ان سب اقدامات نے صرف اور صرف ’منفی رحجانات‘ اور افواہوں پرمبنی صحافت کو جنم دیا۔

آج بھی طریقہ وہی اپنایا جا رہا ہے۔ وفاقی دارالحکومت کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کا ایک جواز اسے راولپنڈی سے قریب کرنا تھا، اب تو لگتا ہے پنڈی یہاں منتقل ہو گیا ہے۔ ویسے کئی سال سے کئی ایکڑ پر مشتمل اسلام آباد میں ایک ’جیل‘ زیر تعمیر ہے، دیکھتے ہیں کب تعمیر ہوتی ہے اور پہلا ’وی آئی پی‘ قیدی کون ہوتا ہے۔

ڈس انفارمیشن ہمیشہ انفارمیشن سے زیادہ مؤثر ہتھیار اسلئے بھی بن جاتی ہے کہ عوام کا سرکار پرسے اعتبار اٹھ چکا ہوتا ہے۔ اس وقت بھی ’X‘ آپ ’V‘ کے بغیر استعمال نہیں کر سکتے۔ مجھے یاد ہے جنرل ضیاء کے دور میں لوگوں کو سیاست سے دور رکھنے کیلئے ’VCR‘ اور بھارتی فلموں کو فروغ دیا گیا، ہیروئن کلچر کو عام کیا گیا۔ سنجیدہ سوچ، پریس اور سیاست پر پابندیاں رہیں۔ آج بھی اور ہمیشہ سے وزارت اطلاعات ’ڈس انفارمیشن‘ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور اگر کوئی واقعی اس ملک میں اس پھیلتی ہوئی ’بیماری‘ کو ختم کرنا چاہتا ہے تو وزارت اطلاعات کو ختم کر دینا چاہئے۔

 یہ صرف اور صرف سیاسی کرپشن کا ذریعہ ہے۔ ہم نے آج ڈیجیٹل میڈیا کے مختلف ذرائع پر پابندیاں لگا کر ’سرکاری‘ ڈس انفارمیشن‘ کو فروغ دینے کی کوشش تو کی مگر عوام نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس سے حکومت اور ریاست کمزور ہو رہی ہے۔ کمال ہے ویسے 1885ءانگریز دور کے ٹیلی گراف ایکٹ کے تحت بشریٰ بی بی پرمختلف شہروں میں مقدمات۔ اگر سرکار نے انکے متنازع بیان پر کوئی مقدمہ کرنا ہی تھا تو کم از کم قیام پاکستان کے بعد بنے کسی قانون کا سہارا لے لیا ہوتا۔

اگر سخت ترین پابندیوں سے مقبولیت ختم کی جا سکتی، ’زباں بندی‘ سے نظریات دبا دیئے گئے ہوتے تو آج کے مقبول ترین لیڈر عمران خان، ماہ رنگ بلوچ اور منظور پشتین نہ ہوتے۔ کل یہ عمل ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور الطاف حسین پر پابندیاں لگا کر آزمایا گیا تو کیا وہ غیر مقبول ہو گئے۔ مقبولیت اور قبولیت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں ’مطلب کے نتائج‘ سے تو جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف کو بھی95 فیصد ووٹ پڑ گئے مگر وہ کبھی دلوں پر حکمرانی نہ کر سکے۔

 پہلے آمرانہ ادوار میں ’انفارمیشن‘ پر پابندی اور ’ڈس انفارمیشن‘ کو فروغ حاصل ہوتا تھا اب نام نہاد سول حکمرانوں نے بھی اسی ذریعے کو اپنی ’فیک مقبولیت‘ کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ سب سے زیادہ ’فیک نیوز‘ کہاں سے چلتی ہیں، جعلی آڈیو اور ویڈیو لیک کہاں سے ہوتی ہیں۔ ہمارا سرکاری ٹی وی، ریڈیو اور اے پی پی نیوز ایجنسی 60 کی دہائی سے ’ڈس انفارمیشن‘ کا سب سے بڑا ذریعہ بنے تو ایک ’قومی میڈیا‘ اپنی ساکھ کھو بیٹھا۔

 اب اگر یہی کام نجی میڈیا بھی شروع کر دیگا تو عوام ڈیجیٹل میڈیا ہی کی طرف جائیں گے چاہے وہاں سے ’فیک نیوز‘ فیڈ ہو رہی ہو یا ’حقائق‘ پر مبنی خبریں اور تبصرے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کسی بھی سویلین حکومت نے چاہے وہ مسلم لیگ (ن) کی ہو، پی پی پی کی یا پی ٹی آئی کی دعووں کے باوجود پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان اور اے پی پی کو آزاد اور خود مختار نہ بننے دیا۔ پرنٹ میڈیا کو کنٹرول کرنے کیلئے ایوب خان نے پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس۔ 1963ءنافذ کیا، جنرل مشرف کے دور میں نجی شعبہ میں ٹی وی لانے کی اجازت تو ملی مگر پیمرا 2002ء آرڈیننس کے ذریعہ اس پربھی کنٹرول حاصل کر لیا گیا 2016ءمیں ماشاء اللّٰہ ہماری پارلیمنٹ نے نواز شریف کی قیادت میں’پیکا‘ کا قانون بنایا سائبر کرائم کو کنٹرول کرنے کیلئے مگر اس کا نشانہ ڈیجیٹل میڈیا پر کام کرنے والے یوٹیوبرز بن گئے۔ 2018 میں عمران خان وزیر اعظم بنے تو تین سال میں تین وزیر اطلاعات نے خاص طور پر فواد چوہدری نے ’میڈیا اتھارٹی‘ بنا کر اس قانون کو مزید سخت کرنے کی کوشش کی۔

آخر اس سب کا حل کیا ہے؟ ریاست کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ جب تک ریاستی بیانیہ سکیورٹی اسٹیٹ سے سوشل ویلفیئر اور ڈیمو کریٹک اسٹیٹ میں تبدیل نہیں ہو گا ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی نہ ختم ہونے کی بھی بڑی وجہ یہی بیانیہ ہے۔ دوئم سیاست میں ریاستی اداروں کا عمل دخل ختم کرنا ہو گا۔ آج آپ سے بات کرنے کی بات اس لیے کی جا رہی ہے کہ ان کو بھی آپ ہی لے کر آئے تھے۔

 انتہا پسندی دہشت گردی کو فروغ دیتی ہے مگر ہم انتہا پسند گروہوں کو سیاسی مقاصد کیلئے پروان چڑھاتے ہیں پھر وہی ہمارے گلے پڑ جاتے ہیں۔ جمہوریت ایک تسلسل کا نام ہے اور کوئی بھی جمہوری معاشرہ پابندیوں سے بند نہیں کیا جا سکتا۔ ڈس انفارمیشن کا توڑ صرف اور صرف ’درست اور حقائق‘ پر مبنی انفارمیشن کا فروغ ہے۔ جس کیلئے ریاست اور حکومت، سرکاری اور نجی میڈیا کو اپنی ساکھ کو بہتر بنانا ہو گا۔ یاد رکھیں ’میڈیا‘ اپنا ایجنڈا سیٹ نہیں کر سکتا نہ ہی دوسرے کا ایجنڈا، اس کا واحد کام حقائق سامنے لانا ہے۔

کئی بار تجاویز دی ہیں پرنٹ، الیکٹرونک اور ڈیجیٹل میڈیا کے حوالے سے مگر بدقسمتی سے صحافت اور صحافی خود ’چمک‘ کا شکار ہو گئے ہیں۔ ایسے میں آزادی اظہار کی جدوجہد کمزور ہو چکی ہے۔ ایک وقت تھا جب حکومت نے پی ایف یو جے کے رہنما منہاج برنا پر امن وامان کے آڈریننس 1963ءکے تحت زباں بندی کا آرڈر جاری کیا اور ان پر بیان جاری کرنے اور انٹرویو دینے پر پابندی لگا دی۔ برنا صاحب نے جیل میں تا دم مرگ بھوک ہڑتال کر دی جو صحافی جیلوں میں تھے انہوں نے جیل سے ہی ہفتہ روزہ زندان نکالنا شروع کر دیا۔ جو کام حکومتیں اور ریاست نہ کر سکی وہ ہم نے Pfujجیسی تنظیم کو تقسیم درتقسیم کرکے خود ہی کر ڈالا۔

یاد رکھیں شہر اور سڑکیں سیل کر کے ’خیالات‘ سیل نہیں کیے جا سکتے۔ سوشل میڈیا، انٹر نیٹ، موبائل سروس پر پابندی سے اور فائر وال عوامی دباؤ کے آگے کمزور بند ہیں۔ پابندیاں ہمیشہ ’ڈس انفارمیشن‘ کا دروازہ کھولتی ہیں۔ ’خبروں‘ پر پابندی سے ’خبریں‘ مر نہیں جاتیں۔ لیڈروں کی زباں بندی سے لیڈر ختم نہیں ہوتے۔ اور کوئی نہیں تو کم ازکم وہ سیاسی لوگ تو سبق سیکھ لیں جو خود ایسی پابندیوں کا شکار رہے ہیں۔ جب تک سرکار ڈس انفارمیشن پھیلاتی رہے گی ’فیک نیوز‘ آتی رہیں گی۔(بشکریہ جنگ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں