ریاست بیانیے کی جنگ میں صحافیوں کی زبان بندی اور انہیں بلاوجہ ہراساں کرنے والے عناصر کا محاسبہ کرے،عبد المجید ساجد کا اغوا کمیونٹی پر حملہ تصور کیا جا رہا ہے۔صحافیوں کو ذہنی طور پر ہراساں کرنا ناقابل قبول ہے۔ ان خیالات کا اظہار صحافیوں پر حکومتی اداروں کے بڑھتے تشدد اور ان کی جبری گمشدگی کے واقعات اور صحافیوں کو ذہنی طور پر ہراساں کرنے پر لاہور پریس کلب میں ایک نمائندہ اجلاس کے شرکاء نے کیا ۔ اجلاس میں سابق صدر لاہور پریس کلب اعظم چوہدری ، معین اظہر ، صدر پنجاب یونین آف جرنلسٹ اینکر پرسن فرخ شہباز وڑائچ، سیکرٹری پی یو جے دستور رحمٰن بھٹہ سمیت صحافیوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ صحافیوں نے گذشتہ دنوں نامعلوم افراد کی جانب سے اغوا کئے گئے معروف صحافی اور سابق سیکرٹری لاہور پریس کلب عبدالمجید ساجد کا پرتپاک استقبال کیا گیا ۔ اس موقع پر سابق صدر لاہور پریس کلب معین اظہر کا کہنا تھا کہ ملک میں آزادی اظہارِ رائے کا گلا گھونٹا جا رہا یے۔ سچ بولنا ، لکھنا جرم بن گیا یے۔ انہوں نے کہا کہ عبدالمجید ساجد ایک نامور صحافی ہیں وہ گزشتہ دو دہائیوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں وہ چار مرتبہ لاہور پریس کلب کے سیکرٹری رہے ہیں۔ ان کا سارا کیریئر حق و سچ اور حب الوطنی کا شاندار نمونہ ہے ان کے ساتھ یہ جبر ناقابلِ فہم ہے۔ اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ علاوہ ازیں گزشتہ دنوں خاتون صحافی عنبرین فاطمہ اور ان کے اہل خانہ کے سارے اکاؤنٹس بند کر دیے گئے تھے اور گزشتہ عرصے میں متعدد صحافیوں کو آف ائیر بھی کرایا گیا۔ سابق صدر لاہور پریس کلب اعظم چوہدری کا کہنا تھا کہ صحافیوں کی جبری گمشدگیوں کے واقعات میں ہوش ربا اضافہ ہو گیا ہے۔ آواز دبانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ صحافی کا کام عام آدمی تک حقائق پہنچانا ہے۔ اگر یہ جرم ہے تو ہم کرتے رہیں گے۔ عبدالمجید ساجد جیسے جید صحافی کے ساتھ یہ سلوک ناقابلِ برداشت ہے۔ صدر پنجاب یونین آف جرنلسٹ اینکر پرسن فرخ شہباز وڑائچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہوش کے ناخن لے اس قسم کے واقعات سے عدم استحکام بڑھے گا۔ فرخ شہباز وڑائچ نے کہا کہ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے۔ اگر ریاست اپنے سروں کو ہی کمزور کرے گی تو یہ ملک کی سالمیت پر سوالات کھڑے کر دے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ رات کی تاریکی میں چار دیواری کی بے حرمتی کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں ہے۔ اس قسم کے ہتھکنڈوں سے حالات مذید خراب ہوں گے۔ سیکرٹری پی یو جے دستور رحمٰن بھٹہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ صحافیوں کی زبان بندی در اصل 24 کروڑ عوام کا گلا گھونٹنے کے برابر ہے کیونکہ یہ صحافی ہی ہیں جو دنیا بھر میں ریاست کا بیانیہ پھیلابے کا ذریعہ ہیں۔ مغوی صحافی عبدالمجید ساجد نے اپنے ساتھ پیش ہونے والے واقعے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رات کے تیسرے پہر گھر کی دیواریں پھلانگ کر نامعلوم افراد داخل ہوئے اور ساتھ چلنے کا کہا ۔ تعارف کی بجائے زبردستی کی گئی ۔ عبدالمجید ساجد نے کہا کہ ساری ذندگی ریاست کے طابع رہا ہوں ، میری صحافت ہمیشہ صحافتی اصولوں اور ریاستی قوانین کی پابند رہی ہے۔ ہمیشہ ملک اور ملکی سالمیت کی بات کی یے۔ اس قسم کا ناروا سلوک سمجھ سے باہر ہے۔ آج بھی پاکستان ذندہ باد کا نعرہ بلند کرتا ہوں۔ حکومت کو سوچنا چاہیے کہ ذبردستی اٹھا کر یا اغواء کر کے بات کرنے کی بجائے دن کے اجالے میں بلا کر بات کی جا سکتی ہے۔ آسان بات کو مشکل کیوں بنایا جا رہا ہے فہم سے بالاتر ہے۔حق نواز گھمن نے کہا کہ عبدالمجید ساجد محب وطن اور متوازن صحافی ہیں ۔ اس موقع پر صحافیوں کی بڑی تعداد نے عبدالمجید ساجد سے یکجہتی کا اظہار کیا اور اس عمل کی مذمت کی۔نمائندہ اجلاس کے شرکا کا کہنا تھا کہ صحافیوں کی اداروں سے جبری برطرفیوں، صحافیوں کی جبری گمشدگی، صحافیوں کے اکاؤنٹ فریز کرنے اور ان کو ہراساں کرنے اور صحافیوں کے گھروں پر چھاپے مارنے کے خلاف تحریک کا آغاز کیا جارہا ہے جس میں آزادی اظہار پر لگی تمام قدغن پیکا ایکٹ اور دیگر قوانین کے حوالے سے تحریک چلائی جائے گی، تاہم حالیہ ملکی حالات کے پیش نظر تحریک کو موخر کیا جارہا ہے۔