تحریر: اقبال جکھڑ۔۔
حسنین شاہ پڑھالکھا،خوبصورت،خوش گفتاراور اچھے سماجی روابط رکھنے والامتحرک نوجوان تھا۔لوئرمڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے حسنین شاہ نے صحافت کی دنیامیں قدم رکھاتوبہت جلد اس کے تمام مروج پینتروں سے أگاھی بلکہ ان پر عبوربھی حاصل کرلیا۔اسی ہنرکے باعث اس کا لیونگ سٹینڈرڈ اپ گریڈھوا اوربائیک کی جگہ گاڑی پھر نئے ماڈل کی گاڑی آگئی تو وہ ھواؤں میں اڑنے لگا اور اس نے مزید اونچی پرواز کے خوابوں کی تعبیرجلدسے جلدپانے کیلئے اپنی رفتارخطرناک حدتک تیزکردی۔اس تیزی میں وہ اس معروضی تلخ حقیقت کوفراموش کربیٹھا کہ ظالم سماج کے مروج ضابطے بہت ھی بے رحمانہ ہوتے ہیں۔اس کی اضطراری کیفیت اورغیرمحتاط روش کودیکھ کرکئی خیرخواہوں نے سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ صحافی کے روابط ھرشعبہ سے ہوتے ہیں مگر اسے کبھی کسی کے ساتھ بریکٹ ہونے یا پارٹی بننے سے گریز کرناچاہیئے اور یہ باورکرانے کی کوشش بھی کی کہ وہ انڈے کھانے پرھی اکتفاکرے توبہترھے،کبھی سونے کاانڈہ دینے والی مرغی کو ایک دم ذبح کرنے کاہرگزنہ سوچے مگرنجانے اس کے سر پرکیا دھن سوارتھی کہ وہ اپنے ہمدردوں کی کسی بات کوخاطرمیں لائے بغیر اندھادھند اپنی دھن میں مگن رھا۔اس کی یہی ضد دیکھتے ھوئے مجھے ایک سینئرکرائم رپورٹرنے کئی ماہ قبل اس خدشہ سے آگاہ کردیاتھاکہ حسنین شاہ کے ساتھ کوئی المیہ رونماھوسکتاھے۔وہ میرابہت احترام کرتاتھا،میں نے مذکورہ سینئرکرائم رپورٹرکاحوالہ دیئے بغیرحسنین شاہ کو اپنے تئیں اس خدشہ سے آگاہ کیااورمحتاط روی کی تلقین کی مگراس نے حدسے بڑھی خوداعتمادی کے باعث ہنس کر ٹال دیااور اپنی مستی میں مست رھا۔پھر وہ لمحہ بھی آن پہنچاکہ دفترسے پریس کلب آتے ہوئے کرائے کے ٹارگٹ کلرز نے اس کا پیچھاکیااورجب وہ پریس کلب کے بہت ھی قریب ٹریفک سگنل پر رکا تو اندھادھندفائرنگ سے کارمیں ھی مار دیاگیا ۔۔ اس المناک سانحہ کا فکرانگیزپہلو یہ ھے کہ وہ جنہیں اپنا دوست،مہربان اوراپنی طاقت گردانتاتھا وہ اس کے سفاکانہ قتل اوربعدازاں اس کا لہو بیچنے میں پیش پیش رھے۔اس حوالہ سے ایک معروف صحافتی رہنماکاکرداربھی بے نقاب ھوا۔مذکورہ رہنما ان دنوں پریس کلب بہت کم آتے تھے مگر وقوعہ کے روز وہ *بروقت*کلب پہنچ گئے اور وقوعہ رونماھونے تک اضطراری کیفیت میں باربارجائے وقوعہ کی جانب متوجہ رھے۔یوں لگتاتھاکہ انہیں علم ھے کہ کیاھونے والاھے ۔ حسنین شاہ کے بہیمانہ قتل کے بعد چند روز احتجاج جاری رھا اورنامزدمرکزی ملزم گرفتاربھی ھوا مگر پھر*یاروں*نے حسنین شاہ کالہو بیچ کر اپنااپنابخرہ وصول پایا اور چندماہ بعد ھی قاتل مقتول کے ورثاءکوراضی نامہ کرنے پرمجبورکرکے جیل سے باھر آگئے۔۔(اقبال جکھڑ)