شکیل ترابی بمقابلہ قیصر شریف

شکیل ترابی بمقابلہ قیصر شریف

تحریر: امجد عثمانی۔۔

جماعت اسلامی پاکستان کی 19 اپریل 2025ء کی ریس ریلیز کے مطابق امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے شکیل احمد ترابی کو جماعت اسلامی پاکستان کا نیاسیکرٹری اطلاعات مقرر کردیا ہے۔۔۔۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔۔ شکیل احمد ترابی زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ اور بعدازاں جماعت اسلامی کشمیر سے وابستہ رہے۔۔۔ وہ میڈیا امور کا طویل تجربہ رکھتے ہیں۔ سابق سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف کو جماعت اسلامی کی تنظیمی ذمہ داریاں دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔۔۔۔حافظ نعیم صاحب نے ایک پریس کانفرنس میں ہمارے رپورٹر دوست جناب محسن بلال کو قدرے تلخ لہجے میں باور کرایا کہ یہ جماعت کا اندرونی مسئلہ ہے۔۔۔۔۔اندرونی نظم کی بات درست تجزیہ مگر یہ ہے کہ اگر جماعت اسلامی کا یہی نظم ہے تو یہ بدترین بدنظمی ہے۔۔۔۔کیونکہ ایک اہل عہدیدار کو اچانک منصب سے ہٹانا دور اندیشی نہیں کوتاہ اندیشی ہے۔۔۔۔۔جماعت اسلامی کے سیکرٹری اطلاعات کے منصب پر فائز ہونے کے بعد میرے قیصر شریف سے کوئی قریبی مراسم نہیں رہےلیکن بنیادی تعلق بھی نہیں ٹوٹنے دیا ۔۔۔۔۔اس  دوری کی وجہ شاید الیکٹرانک میڈیا کا گلیمر اور برقی اچھل کودیوں کا قرب تھا جس میں وہ کھو گئے۔۔۔۔سچی بات یہ ہے کہ قیصر شریف نے دینی جماعتوں سے بیزار میڈیا میں جماعت اسلامی کے لیے نرم گوشہ پیدا کیا۔۔۔۔۔کچھ “بونے” صحافی قیصر کو کیک کے نام پر مطعون کر رہے جو کہ شرمناک ہے۔۔۔۔۔قیصر صاحب گواہی دینگے کہ میں نے کیک کے معاملے میں انہیں ہمیشہ حیلے بہانے سے جھانسا دیا کہ میں دفتر ہوں۔۔۔سفر میں ہوں ۔۔۔۔شہر سے باہر ہوں۔۔۔لیکن ایک مرتبہ انہوں نے بچوں کے نام پر مجھے رام کر لیا۔۔۔۔۔۔میں نے اسی لیے بہت پہلے ایک بلاگ میں انہیں چھیڑتے ہوئے “مسٹر کیک” کہا تھا لیکن یہ تب لکھا جب وہ عہدے پر تھے۔۔۔اب جب کہ وہ عہدے پر نہیں رہے تو مجھے یہ گواہی دینے میں کوئی باک نہیں کہ حالیہ ڈیڑھ دہائی میں  شاید ہی ان ایسا جفاکش ترجمان کسی جماعت کو ملا ہو۔۔۔۔۔اس کا بھی ایک پس منظر ہے۔۔۔یہ چند دنوں کی بات نہیں برسوں کا قصہ ہے۔۔۔۔یادش بخیر۔۔۔۔یہ 2008کی بات ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت زیر عتاب تھی اور  جناب نجم سیٹھی کی زیر ادارت  ڈیلی ٹائمز اور روزنامہ آج کل میں جمعیت کے خلاف ٹھوک ٹھوک کر خبریں چھپتی تھی۔۔۔۔میں تب آج کل کا سٹی ایڈیٹر تھا۔۔۔۔۔تب قیصر شریف سے علیک سلیک ہوئی۔۔۔میں حیران ہوتا کہ وہ جمعیت کے لیے گھنٹوں میرے پاس ڈیسک پر بیٹھے رہتے۔۔۔۔گھٹنے چھوتے اور خبریں مینج کرتے۔۔۔۔پھر وہ محنت کرتے کرتے جماعت اسلامی کے سیکرٹری اطلاعات بنے اور 24گھنٹے دستیاب ہو کر پبلک ریلیشنز کو نئی جہت دی۔۔۔۔تب ایک لطیفہ بھی ہوا۔۔۔۔ہمارے ایک کرائم رپورٹر جو اب اپنے آپ کو مہاتما  سمجھتے ہیں۔۔۔۔انہوں نے جمعیت تنازع کی ایک خبر میں  پنجاب یونیورسٹی کے ترجمان کا موقف دیا۔۔۔انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کو جامعہ پنجاب لکھ دءا۔۔۔میں نے مذاق میں کہا کہ پنجاب یونیورسٹی تو سنا یہ جامعہ پنجاب کیا ہوتا ہے۔۔۔کہنے لگے سر مجھے نے نہیں پتہ کہ جامعہ کیا ہے۔۔۔میں نے یہ خبر پول سے لی۔۔۔ادھر سے ہی غلط لکھا گیا ہوگا۔۔۔۔ٹھیک کرلیں۔۔۔۔بہر کیف سنجیدہ بات یہ ہے کہ قیصر نے جمعیت سے جماعت کے شعبہ اطلاعات تک کا سفر ‘جماعتی جذبے”سے طے کیا۔۔۔۔قیصر شریف کا ایک پہلو اور بھی ہے اور وہ ہے میڈیا کے دوستوں کے غم میں برابر شریک ہونا۔۔۔۔محاورے کی حد تک یہ الفاظ بڑے آسان ہیں مگر عملی طور پر انتہائی مشکل۔۔۔بڑے بڑے دعویدار اس راستے میں ڈگمگا جاتے ہیں۔۔۔۔مجھے یاد ہے 2014میں۔۔میں لاہور پریس کلب کی گورننگ باڈی کا رکن تھا ۔۔بزرگ اخبار نویس جناب ادریس بٹ گھرکی ہسپتال میں سسک رہے تھے۔۔۔۔جب کلب اور یونین کے عہدیدار قصےکہانیاں سنا رہے تھے تب قیصر شریف میری اپیل پر اپنی سواری پر دسمبر کی ایک دھند آلود ٹھٹھرتی شب میرے ساتھ گھر ہسپتال گئے اور ادریس بٹ کے زخموں پر مرہم رکھی۔۔ان کے بہو بیٹے کو حوصلہ دیا۔۔۔۔اس طرح کے اور واقعات بھی ہیں کہ انہیں خبر ملی تو وہ بھاگے چلے آئے ۔۔۔۔مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی تردد نہیں کہ قیصر شریف نے میڈیا کے دوستوں کے غم ایسے بانٹے کہ جیسے کوئی اپنا اشک شوئی کرتا ہے ۔۔جب کسی میڈیا ورکر کو دکھ کی گھڑی میں اپنا ایڈیٹر۔۔ اپنا ڈائریکٹر نیوز اور اپنا بیورو چیف نظر نہیں آتا تو قیصر شریف نے میلوں سفر طے کرکے اچانک کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔۔گلے لگا لیا۔۔۔۔کسی کے باپ کے جنازے کو کندھا دیا۔۔۔تو کسی کی ماں کی وفات پر اس کے آنسو پونچھ دیے۔۔میں ابھی تک شرمندہ ہوں کہ وہ میرے والد گرامی کے انتقال پر ایک سو اسی کلومیٹر سفر کرکے اسی شام میرے پاس پہنچ گئے اور میں ان کے بھائی کی وفات پر ایک رسمی سی فون کال سے آگے نہ بڑھ سکا۔۔یہی وہ پہلو ہے جو قیصر شریف کو دوسروں سے ممتاز کرتا ہے ۔۔۔ہوسکتا ہے  ترابی صاحب قیصر شریف سے میڈیا امور کے بہتر آدمی ہوں لیکن شاید وہ قیصر شریف کی طرح  میڈیا کے لوگوں کا غم نہ بانٹ سکیں۔۔۔۔اس کی دو وجوہات ہیں اور وہ بھی تکنیکی ہیں ۔۔۔۔ایک تو وہ پیرانہ سالی میں ہیں اور شنید ہے کہ علیل بھی۔۔۔۔دوسرے لاہور اور پنجاب سے ذہنی طور پر کوسوں دور بھی۔۔۔۔۔اور جماعت کا ہیڈکوارٹرز پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ہے۔۔بہر حال ترابی صاحب کو  جماعت اسلامی کے سیکرٹری اطلاعات کی مسند مبارک ہو۔۔(امجد عثمانی)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں