ham le kar rahenge azadi

شناخت پریڈ ٹو

تحریر: حامد میر۔۔

بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر اندور کی پولیس نے ایک کارٹونسٹ ہیمنت مالویہ کیخلاف وزیراعظم نریندر مودی کی شان میں گستاخی کے الزام میں مقدمہ درج کرلیا ہے۔ کارٹونسٹ کیخلاف مقدمے کا مدعی آر ایس ایس کا ایک کارکن ونے جوشی ہے جس نے الزام لگایا ہے کہ ہیمنت مالویہ نے وزیراعظم مودی کے علاوہ ہندوئوں کے دیوتا شیوا کی بھی توہین کی ہے۔ مالویہ کیخلاف مقدمے کی خبر پڑھ کر مجھے ڈاکٹر محمد یونس بٹ کی نئی کتاب ’’شناخت پریڈ2‘‘ یاد آگئی جو انہوں نے حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے آغاز سے چند دن قبل لاہور میں عنایت کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب مختلف شخصیات کے بارے میں چھوٹے چھوٹے خاکوں پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی ’’بٹ تمیزیاں‘‘ اور ’’مزاح گردی‘‘ میں کہیں بھی پھکڑ پن اور تمسخر نظر نہیں آتا۔ ان کا شگفتہ طنز افراتفری نہیں بلکہ ’’افرا تفریح‘‘ پیدا کرتا ہے۔ نریندر مودی کے متعلق انہوں نے لکھا کہ یہ وہ وزیراعظم ہے جسے ایک میڈیا سروے کے مطابق 76فیصد لوگ پسند کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے خیال میں بھارت کے 76فیصد میڈیا کا تعلق بی جے پی کیساتھ اور اگر 100فیصد میڈیا بی جے پی کا ہوتا تو پھر 110فیصد لوگ مودی کو پسند کرتے۔ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ مودی ہندوئوں کا اسامہ بن لادن ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ اسامہ سمندر میں ہے اور مودی خشکی پر ہے۔ اسامہ دوسرے ملکوں پر حملے کرواتا تھا اور ذمہ داری بھی لیتا تھا اور مودی اپنے ہی ملک پر حملے کرواتا ہے اور ذمہ داری پاکستان پر ڈال دیتا ہے۔ ڈاکٹر محمد یونس بٹ نے یہ کتاب مجھے 14اپریل 2025ء کو دی تھی اور 22اپریل کو پہل گام میں نہتے سیاحوں پر ایک حملہ ہوا۔ مودی حکومت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر پہلے لگایا اور تحقیقات بعد میں شروع کیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب ایسی باتیں بھارت میں لکھتے تو ان کے ساتھ کیا ہوتا؟ وہی ہوتا جو ہیمنت مالویہ کے ساتھ ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کا وکیل عدالت کو بتاتا کہ جناب میرے موکل نے صرف نریندر مودی پر نہیں بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ پر بھی بہت طنز کیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’مانا پیسے سے محبت نہیں ملتی لیکن محبوبہ تو ملتی ہے ناں‘‘۔ٹرمپ ایک مکمل بزنس مین ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتا کہ اس کے صدر بننے سے امریکا کو کیا فائدہ ہوگا وہ صرف یہ سوچتا ہے کہ امریکا کا صدر بننےسے اسے کیا فائدہ ہوگا۔ عدالت میں ڈاکٹر صاحب کے وکیل کی کوئی دلیل نہ سنی جاتی اور مختصر سماعت کے بعد ڈاکٹر صاحب کو فیک نیوز پھیلانے اور دہشت گردوں کی معاونت کے الزام میں چودہ سال قید بامشقت سنا دی جاتی۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کیا ڈاکٹر محمد یونس بٹ کی یہ نئی کتاب صرف غیر ملکی شخصیات کے خاکوں پر مشتمل ہے؟ جی نہیں! اس کتاب میں زیادہ تر خاکے پاکستانی شخصیات کے بارے میں ہیں۔ سب سے لمبا خاکہ اداکارہ میرا کا ہے جسکی وجہ صرف ڈاکٹر صاحب ہی بتا سکتے ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ مریم نواز کا خاکہ پڑھ کر میں بہت زیادہ تشویش کا شکار ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کا تعلق تو گوجرانوالہ سے ہے لیکن آج کل وہ لاہور میں مقیم ہیں اور کچھ عرصہ قبل لاہور پولیس نے وزیر اعلیٰ مریم نواز کا تمسخر اڑانے کے الزام میں پیکا قانون کےتحت مقدمات درج کرنے کا سلسلہ شروع کیا جو پھیلتا ہوا خیبر پختونخوا اور سندھ سے بلوچستان تک پہنچ گیا۔ یقیناً سوشل میڈیا پر لاف زنی، ہرزہ سرائی اور گالی گلوچ کو آزادی اظہار کے نام پرنظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن بھارت کی طرح پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں تعمیری تنقید اور بذلہ سنجی کو ملک دشمنی قرار دینے میں دیر نہیں لگاتے۔ آج کل پاکستان کی حکمران اشرافیہ میڈیا کی بڑی تعریفیں کر رہی ہے اور اسے بھارتی میڈیا کا مقابلہ کرنے والی آہنی دیوار قرار دے رہی ہے لیکن میں ڈاکٹر محمد یونس بٹ کے متعلق انتہائی تشویش کا شکار ہوں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’مریم نواز میں دو بڑی خوبیاں ہیں جس کی وجہ سے وہ بڑی لیڈر ہیں۔ ایک یہ کہ وہ نواز شریف کی بیٹی ہیں اور دوسری یہ کہ نواز شریف ان کے والد ہیں‘‘۔ یہاں تک تو قابل برداشت ہے لیکن ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی لکھ دیا کہ مریم نواز کو جو بات اچھی نہ لگے اس کے لئے اپنا کان بند نہیں کرتیں بلکہ دوسروں کی زبان بند کردیتی ہیں۔ مخالفین مریم کو آئرن لیڈی بھی کہتے ہیں کیونکہ جیل میں وہ فرائنگ پین سے کپڑے آئرن کیا کرتی تھیں۔ مریم کی سیاسی ٹریننگ میاں نواز شریف نے خود کی ہے اسی لئے مریم نواز کی سیاست میں عوام کو نوے کی دہائی کے نواز شریف نظر آتے ہیں۔ بلاول مردوں کا بے نظیر بھٹو اور مریم نواز عورتوں کی نوازشریف ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بلاول کے متعلق لکھا ہے کہ بلاول کی اردو اور پاکستان کی اکانومی میں یہ قدر مشترک ہے کہ ہر کوئی چاہتا ہے بہتر ہو پر ہوتی نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے شہباز شریف کو وہ پنکھا قرار دیا ہے جو چلتا زیادہ ہے پر ہوا کم دیتا ہے۔ عمران خان وہ پنکھا ہے جو چلتا نہیں لیکن ہوا بہت دیتا ہے۔ جیسے شہباز شریف سمجھتا ہے کہ وہ واقعی وزیراعظم ہے ایسے ہی چاہت علی خان سمجھتا ہے کہ وہ سنگر ہے۔ عمران خان کے متعلق فرمایا کہ وہ سیاست میں نفرت کے قائل نہیں شدید نفرت کے قائل ہیں۔ پاکستان میں ہر کامیاب سیاست دان کے پیچھے عدلیہ اور محکمہ زراعت ہوتا ہے۔ عمران خان وہ سیاستدان ہے جسکے پیچھے یہ دونوں ہیں فرق صرف یہ ہے کہ پہلے وہ خان کے پیچھے تھے اب خان ان کے پیچھے ہے۔ ڈاکٹر محمد یونس بٹ نے فیصل واوڈا کے متعلق لکھا ہے کہ یہ وہ مبینہ سیاستدان ہے جسکی سیاست جوس کےاس خالی ڈبے جیسی ہے جس پر پائوں مارنے سے کوئی زخمی نہیں ہوتا لیکن پٹاخہ دور تک سنائی دیتا ہے۔ فیصل واوڈا وہ فلمی ہیرو ہے جو خود ہی محبوبہ کو اغوا کرتا ہے اور پھر خود ہی اسے چھڑانے پہنچ جاتا ہے اور پھر یہ گانا گاتا ہے میں زبان ہوں کسی اور کی مجھے بولتا کوئی اور ہے۔ ہم سب امید سے ہیں کہ ڈاکٹر محمد یونس بٹ کی بٹ تمیزیاں نظر انداز کردی جائیں گی۔ ہیمنت مالویہ کی طرح ان پر کوئی مقدمہ قائم نہیں ہوگا۔ حکومت کو صرف یاد دلانا تھا کہ 2025ءکے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں بھارت کا نمبر 151اور پاکستان کا نمبر 158 ہے۔ پاکستان سات درجے نیچے ہے ۔ ہم سب امید سے ہیں کہ اگلے سال ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں بھی بھارت کو شکست دی جائے گی۔(بشکریہ جنگ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں