تحریر: محمد عاصم خان۔۔
نوٹ:کوئی بھی ساتھی تحریر سے جذباتی نہ ہو بس پڑھ کر عوامی حق تلفی اور وی آئی پی کلچر کے خاتمے کے لئے قانونی سچی اور ثبوتوں کے ساتھ صحافت سے ان بگڑے نوابوں کو سدھارنے کی کوشش کریں ۔۔
میں ضلع وسطی پولیس کے سرپرست اعلی سینئر سپرٹینڈنٹ پولیس جناب محترم ذیشان صدیقی صاحب کی پولیسنگ کا ایک ایسا طریقہ بتانا چاہتا ہوں جو شاید بہت سارے دوست جانتے ہوئے بھی دوستیوں اور مروت میں نہیں لکھ پاتے ۔ میں تقریبا عرصہ 25 سال سے شعبہ صحافت سے تعلق رکھتا ہوں میری رہائش لیاقت آباد تھانے کی حدود میں لیاقت آباد بی ون ایریا میں ہے اور یہی علاقہ میری جائے پیدائش ہے ۔۔ ہوا کچھ یوں کہ میرے علاقے میں اکثر طاقت کے نشہ میں دھت ایک صاحب کبھی اپنی گاڑی کسی اور کی دکان اور گھروں کے آگے کھڑی کرنے اور کبھی کسی بھی چھوٹی سی باتوں پر جھگڑتے تھانہ پولیس کرتے نظر آتے ہیں ۔۔ اور سال میں ایک دفعہ محفل قوالی کے لئے دوروز کے لئے علاقے کے دکانداروں اور علاقہ مکینوں کی گلیاں بند کرکے پولیس کی مدد سے ہی یرغمال بنالیتے ہیں ان کے جاہلانہ رویہ خوف کے مارے لوگوں نے کبھی کوئی آواز بھی اٹھائے تو اسے کوئی نہ کوئی حربہ استعمال کرکے دبا دیا گیا ۔۔ ان صاحب کا بیک گراونڈ یوں بتا رہا ہوں کہ ایسے نمونے تقریبا ہر علاقے میں ہی مل جاتے ہیں خیر ۔۔ عید قرباں پر جانوروں کی قربانی ایک فریضہ اور گھروں کے باہر جانوروں کیلئے جگہ مختص کرنا اور ان کی خدمت کرنا کراچی کا کلچر ہے لیکن ہوا کچھ یوں کہ بگڑے نواب میری والدہ کی گلی میں جو میری گلی سے ایک گلی آگے ہے اپنی رہائش گاہ پر ماشاءاللہ سے کئی جانور عید قرباں سے چالیس روز قبل لے آئے اللہ انہیں اور توفیق عطا فرمائے علاقے میں رونق ہوگئی لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے جانوروں کو باندھنے کے لئے آدھی سے زیادہ گلی میں بانس اینٹیں رکھ کر باڑہ بنا لیا جس پر اہل محلہ جس میں میرا چھوٹا بھائی بھی شامل ہے جس کے گھر کا راستہ بھی یہی سب نے تکلیف پر ان سے راستہ کشادہ کرنے کی گزارش کی تو وہ اہل محلہ کو مغلظات اور دھمکیوں پر اتر آئے جس سے اشتعال پھیلا اور مجھ سے رابطہ کیا گیا کہ میں کچھ کروں میں نے سب کو صبر و تحمل اور قانونی راستہ اپنانے کا مشورہ یہ سوچ کردیا کہ اس سے لڑائی جھگڑے کے بچائے اچھا حل نکل آئے گا ۔ ڈپٹی کمشنر سینٹرل آفس میں درخواست کا مشورہ دیا جس پر اہل محلہ کی جانب سے تقریبا پندرہ راستوں کی بندش سے تنگ اہل محلہ نے شناختی کارڈز اور دستخط کے ساتھ درخواست دی جس پر ڈپٹی کمشنر سینٹرل طحہ سلیم نے اسسٹنٹ کمشنر لیاقت آباد کو وزٹ کا کہا جو وہاں پہنچے اور اہل محلہ کی شکایت کو درست قرار دیتے ہوئے اضافی نمودونمائش کے لئے بلا فضول بانسوں کو ہٹانے کا حکم دے کر شام کو دوبارہ وزٹ کا کہہ کر چلے گئے لیکن کسی مصروفیت کی وجہ سے نہ آسکے، انہیں دوبارہ بتایا گیا کہ سرکاری احکامات پر عملدرآمد نہیں ہوا تو انہوں نے میرے سامنے اپنے اسٹاف مصور کو بلاکر بولا کہ ایس ایچ او لیاقت کو پابند کرو کہ وہ وہاں جائے اور اس شخص کو کہے کہ بدمعاشی نہ کرے مکینوں کو جانوروں سے نہیں راستے کی بندش سے اعتراض ہے وہ بانس اینٹیں ہٹا لیں اور آمدورفت کو یقینی بنائیں۔
اب یہاں سے سنیں ہماری ڈسٹرکٹ سینٹرل پولیس کا احوال جب اہل محلہ اسسٹنٹ کمشنر کے احکامات کی تعمیل کے لئے لیاقت آباد تھانے گئے تو ان سے درخواست وصول کرکے پولیس تین دن کے لئے سو گئی پھر شروع ہوا فون فون کا گیم ،پاور پیسہ تعلقات جب تین دن بعد اہل محلہ بمعہ فیملیز اس درخواست پر عملدرآمد کے حوالے سے پوچھنے ایس ایچ او لیاقت آباد غلام یاسین صاحب کے کمرے میں پہنچے تو ان کا رویہ حلیہ کہیں سے عوام کے خادم کا نہیں لگا سول وردی میں وہ آپے سے ایسے باہر ہوئے کہ انہوں نے درخواست گزاروں کو مغلظات کے ساتھ دھکے دھمکیاں من گھڑت کہانیاں سنا کر تھانے سے ہی نکال دیا کہ جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی موجود ہے کہا کمشنر کے پاس جاؤ ڈپٹی کمشنر کے پاس جاؤ میں قربانی کے جانور نہیں ہٹا سکتا ایک ایس ایچ او کی سیٹ پر بیٹھے بات تک کرنے کی تمیز نہ رکھنے والے غلام یاسین کو شاید اردو بھی پڑھنی نہیں آتی کہ درخواست میں جانور ہٹانے کا نہیں جانوروں کی آڑ میں طاقت اور شعبدہ بازی کی نیت سے بند کیا گیا راستہ کھولنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اہل محلہ ہزیمت میں میرے پاس آئے اور مجھے یہ سب بتایا تو ایس ایچ او غلام یاسین کو بہت فون کئے لیکن وہ فون اٹینڈ نہ کرسکے مجبورا دوبارہ اہل محلہ کو تھانے بھیجا اور ان کے کان پر فون لگوایا تو انہوں نے مجھے فورا بڑا بھائی مانتے ہوئے اپنے پہلے کے رویے کی تردید کرتے ہوئے مجھے کہا کہ سر ابھی تو رات بہت ہوگئی ہے صبح میں پولیس بھیج کر راستہ کھلوا دونگا پھر صبح تو نہیں لیکن شام میں تھانہ لیاقت آباد کی ایک موبائل نفری کے ہمراہ پہنچ گئی اور بانس ہٹوا کر راستے کو کشادہ کردیا مسئلہ یہاں ختم ہوگیا لیکن پھر تھوڑی ہی دیر میں نو دولتیہ رہائشی اپنے بیٹے کے سیٹھ کے جانوروں کی تذلیل جان کر فون فون کھیلتے ہوئے دوبارہ راستہ بند کردیا اہل محلہ پھر تھانے گئے دوبارہ موبائل آگئی اس دفعہ ایک دبنگ جوان نے چارج سنبھالا اور بانس اینٹیں ریموو کروانی شروع کیں اسی دوران میں نے بھی دیکھا کہ بانس ہٹائے گئے راستہ کھولا گیا اس دوران بدمزاج بدنام محلہ اس رہائشی نے پھر فون گھمائےتو مجھے اطلاع ملی کہ پولیس موبائل کو ڈی ایس پی لیاقت آباد کا آرڈر آیا ہے کہ واپس آجاؤ بانس لگا کر گلی دوبارہ بند کردو میرے پوچھنے پر موبائل ڈرائیور نے کہا کہ ایس ایچ او کا حکم ہے کہ چھوڑ دو بانس دوبارہ لگانے دو تھانے آجاؤ اور موبائل چلی گئی اس بابت جب میں نے ڈی ایس پی لیاقت آباد سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ مجھے تو یہ مسئلہ علم میں ہی نہیں ہے نہ میں نے بلایا گیم گھوم گئی۔ پولیس کے روایتی انداز میں۔ جب میں نے ایس ایچ او غلام یاسین کو فون کیا تو وہ فون اٹھاتے ہوئے مجھ پر ایسا برسا کہ جیسے میں نے آج ٹھیلوں ،پتھاروں گٹکے والوں، کباڑیوں، منشیات والوں کی بیٹ جمع کرکے اسے نہ پہنچائی ہو۔۔ چیخا کہ معاف کردو یار قربانی کے جانور ہیں تم کیوں میری نوکری کے پیچھے پڑے ہو میں نہیں ہٹا سکتا یہ آپ کا آپس کا مسئلہ ہے خود حل کرو اور یہ کہہ کر فون کاٹ کر تھانے سے بھی غائب ہوگیا ۔۔ چھوٹی سی بات پر مجبورا مگر بہت مان سے ان کے کچھ خیرخواہ صحافی دوستوں کی زبانی سن رکھنے پر جب میں نے ایس ایس پی سنٹرل ذیشان صدیقی کو فون کیا تو وہ مصروفیت اور صرف مخصوص فون اٹھانے کے عادی ہونے کی وجہ سے کال نہ اٹھا سکے ۔اس کے بعد سی آر کے ایک سینیئر ساتھی سے رابطہ کیا جنہوں نے ایک بیل میں ہی فون اٹھا کر خیریت دریافت کرتےتمام معاملہ سن کر ایس ایس پی صاحب سے بات کرنے کا کہا تو کچھ دیر بعد اپنے موبائل پر ایس ایس پی سینٹرل کی کال دیکھ کر موبائل بھاری لگا سلام دعا کی اس سے قبل میں انہیں بذریعہ واٹس ایپ اہل محلہ کی درخواست اور مسئلہ بتا چکا تھا ۔۔۔
اب سنیں آپ ایک سندھ حکومت کے عوامی خدمت گار ملازم ایس اسی پی سنٹرل کی باتیں پہلے میں نے ان سے کہا کہ سر قربانی کے جانور گھروں کے باہر باندھنا ان کی خدمت اور آخری دنوں میں رت جگوں کے لئے رات کے اوقات میں گلیاں بند کردینا کلچر ہے لیکن ہمیشہ قربانی کرنے والا محلے والوں سے تعاون کرتا ہے ان بگڑے نواب نے تو میت کی ایمبولینس کے لئے بھی راستہ نہیں چھوڑا ہر پی ایس پی افسر کی طرح جلدی میں رہنے والے ذیشان صاحب نے مجھے وہی ایس ایچ او والا جواب دیا کہ قربانی کے جانور ہیں یہ تو ہر گلی میں ہوتا ہے پھر ان کے منہ سے وہ سچ نکل ہی گیا جس کی وجہ سے وہ تھانے کی موبائل واپس بلانے پر مجبور ہوئے تھے صاحب نے کہا کہ مجھے اس مسئلے کیلئے سیاسی جماعت کے عہدیداران کے فون بھی آئے ہیں کہ محلے والے بدمعاشی کررہے ہیں شریف آدمی سے اور ساتھ یہ کہا کہ پھر بھی میں لیاقت آباد ایس پی کو انکوائری دیتا ہوں وہ دیکھیں گے کہ یہ معاملہ کیا ہے ۔ذی شعور ایک ایس ایس پی سیٹ پر براجمان افسر علاقہ عوام کی درخواست تک نہ پڑھ سکا اور شریف شہریوں کو بدمعاش قرار دے کر کال کٹ کردی۔ سوال یہ ہے کہ پولیس کا کام حقائق جاننا ہے ناکہ سیاسی دباؤ میں مظلوم کو دبانا جس کو اس نے شریف قرار دیا اس کا علاقے سے ٹریک ریکارڈ تو لیتے کہ اس کا تو محلے میں کردار ہی کبھی اپنی گاڑیاں دوسری کی جگہوں پر کھڑی کرکے دھونس بدمعاشی کرنا تو کبھی کسی سے جھگڑا پولیو ٹیم سے منہ ماری اور دیگر مسئلوں میں تھانے آتے جاتے رہنا ۔ شریف کے لئے ایس ایس پی سنٹرل کا ایک سیاسی جماعت کے عہدیداران کے فون پر ایسا اعتقاد ہوا کہ انہیں فریادی بدمعاش اور بدمعاش شرفا لگنے لگے اور انہوں نے سیاسی وفاداری بھی خوب نبھائی اس کے بعد نہ تو میری کال اٹھائی نہ کوئی رپلائی کیا ایک دوست کو یہی کہا کہ آپس کی ٹسل ہے قربانی کے جانور ہیں میں کچھ نہیں کرسکتا ۔ یہاں یہ کہانی ختم ہوئی۔۔
اس نے صحافت کو جگایا تو اب پیدا ہوئے سوالات کے درخواست گزار بدمعاش تھے تو انہوں نے جھگڑا کرکے خود قانون ہاتھ میں لے کر راستہ کیوں نہیں کھلوالیا ؟۔ پھر ان بدمعاشوں کے لئے میری جانب سے ایس ایچ او کو کال کے بعد پولیس نے بدمعاشوں کا ساتھ دیتے ہوئے کیوں راستہ اپنی نگرانی میں دودفعہ کھلوایا؟ ان بدمعاشوں کو گرفتار کرکے مقدمات کیوں درج نہیں کئے؟ ایس ایس پی کو ایس ایچ او کی جانب سے درخواست گزاروں کے ساتھ نامناسب رویہ کے حوالے سے دی گئی درخواست کا کیا ہوا۔؟اب سینٹرل پولیس کی کارکردگی پر ایک آنکھ بچاتی ذاتی نظر ڈالتا چلوں۔۔ میری جواں سال بیٹی کو دس نمبر پل پر گاڑی نے ہٹ کیا جس میں اس کی موت واقعہ ہوئی پولیس کو کوئی سراغ نہیں مل سکا ۔ میرے گھر کے نیچے سے میری سمیت دو موٹر سائیکلیں چوری ہوئیں نہیں ملیں میرے بیٹے اور اس کے دوستوں سے گھر کے نیچے سے مسلح ڈاکو موبائل نقدی چھین کر فرار ہوئے کچھ نہیں ہوا ۔انگارہ گوٹھ سندھی ہوٹل بلوچ پاڑہ پانچ تا دس نمبر گٹکے ماوے کی فروخت موٹر سائیکلیں موبائل اسنیچنگ چوری کی روزانہ وارداتیں ،سی ون ڈاکخانہ اور تین پٹی پل کے نیچے منشیات کے اڈے الحمداللہ ہر طرح کے کرائم کے لئے لیاقت آباد بھی ڈسٹرکٹ سینٹرل سے کم نہیں ہے اور نہ ہی پریس ریلیز گروپ بناکر کچھ کم ہوا لیکن ہماری پولیس ہماری محافظ ہے ہر جرم کے بعد مستعد رہنے والی پولیس۔ یہ صرف ایک تھانے پر ہلکی سی نظر ہے کسی کو ضلع وسطی کی کرائم اپ ڈیٹ کی ضرورت ہوتو حاضر ہوں ۔میں عرصہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہوں بڑے افسران کے دفاتر تھانوں میں بلا ضرورت جانا فطرت میں نہیں ہے کیونکہ میری سوچ یہ ہے کہ آپ کی اپنی شخصیت پہچان ہونی چاہئے یہ سیاسی بھرتی سیٹیں خریدے افسر کی سیٹ بڑی کچی ہوتی ہے کب صاحب ناراض ہو جائے اور اسے کوئی اور بھا جائے آتے جاتے رہتے ہیں صحافت سچائی ہے اور خدمت ہے اسی لئے میں ہمیشہ اپنے کام پر فوکس کرتا ہوں یہ مکمل میرا ذاتی میری والدہ کی گلی اور علاقے کا مسئلہ تھا اور میں علاقے میں بھی گمنام لیکن باعزت زندگی عاجزی سے گزار رہا ہوں لیکن بات وہی کہ ہم شریف کیا ہوئے ۔۔ میں کبھی کسی تنازعات میں علاقے کی کسی بلا ضرورت مسئلہ میں نہیں پڑھتا لیکن یہ میرا اپنا مسئلہ تھا اور خود ہی قانونی مدد کی کوشش کی جو نہ مل سکی ۔ نہ اس تحریر کا مقصد کسی کی تذلیل ہے نہ ذاتی عناد۔میرے تمام کرائم رپورٹر ساتھی اور دوسری بیٹ کے صحافی بھائی بہت تعاون کرتے ہیں مجھے سو سے زیادہ فیصد یقین ہے کہ اگر میں پکارتا تو دوستوں کا تانتا بندھ جاتا میں نہ کسی سے بغض رکھتا ہوں نہ کبھی کوئی جھوٹی بے بنیاد ذاتی عناد پر کوئی صحافت کرتا ہوں۔ اس تحریر کا مقصد صرف یہ ہے کہ میں نے یہ سب کچھ ایک عام شہری کی طرح برتا یوں بھی کہ یہ میرے محلے کا ذاتی مسئلہ تھا اور اچھا تجربہ ہوا کہ جب پولیس کا رویہ مجھ صحافی کے ساتھ ایسا ہے تو تھانوں کے چکر لگاتے جائز کاموں کے شہریوں کے ساتھ کیا ہوتا ہوگا کرائم کی خبروں سے دل بھر گیا تھا بیٹی کے جانے کے بعد لیکن شکریہ ڈسٹرکٹ سینٹرل پولیس کا جس نے پھر پولیس کی کارکردگی عوامی نہیں سیاسی کارکردگی دکھانے کا حوصلہ دیا کوشش کروں گا ڈسٹرکٹ سینٹرل کی پولیس کارکردگی کے حوالے سے خبریں دیتا رہوں اور اس مسئلہ میں مجھے جو برداشت کرنا پڑا دوسروں کو اس میں مدد کروں اور نہ ہی اس کا مقصد ایس ایس پی صاحب کسی وضاحت کی ضرورت ہے کیونکہ وہ پڑھیں گے تو اس میں سے کچھ جھٹلا نہیں سکیں گے پندرہ سال سے ایک چینل میں کام کررہا ہوں کام ملتا رہے گا پولیس کے کارنامے تو روز ہی ہوتے ہیں قانون سے نہیں تو صحافت سے وی آئی پی اور پولیس کے سیاسی کلچر پر کچھ کام کرتا رہوں گا مؤدبانہ گزارش ہے تمام دوستوں سے کہ کسی افسر سے کوئی ملاقات گلے شکوے اس بارے میں نہ کرے مجھے کچھ نہ آتا ہو اللہ کا شکر ہے صحافت بہت اچھی آتی ہے اور وہ کرتا رہوں گا موقع بہت آئیں گے خبریں تو روز ہی کوئی نا کوئی مل ہی جاتی ہیں ۔والسلام( محمد عاصم خان)۔۔