تحریر: بلقیس جہاں۔۔
پاکستان میں آزادیٔ صحافت ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ کبھی یہ دباؤ کی صورت میں سامنے آتی ہے، تو کبھی سنسرشپ کے روپ میں۔ تاہم اس وقت سب سے خطرناک چیلنج جس کا سامنا صحافتی اداروں اور تنظیموں کو ہے، وہ ہے سرکاری فنڈز پر انحصار۔ جو چیز بظاہر سہولت یا ترقی کے نام پر دی جاتی ہے، وہ درحقیقت ایک ایسا خاموش ہتھکنڈہ ہے جس سے اداروں کی خودمختاری رفتہ رفتہ زائل ہو جاتی ہے۔
جب کوئی صحافتی تنظیم یا ادارہ حکومت کے مالی سہارے پر چلتا ہے، تو اس کی زبان میں وہ قوت نہیں رہتی جو ایک آزاد میڈیا کی پہچان ہونی چاہیے۔ پاکستان میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں، جہاں فنڈز کے حصول کی خاطر صحافیوں کو حکومتی بیانیے کے مطابق خاموشی اختیار کرنی پڑی یا پھر ایسے قوانین جیسے کہ پیکا کے خلاف آواز بلند کرنے سے گریز کرنا پڑا۔
صحافتی تنظیموں کا اصل کردار حکومت اور اداروں کی نگرانی، عوامی مفادات کا تحفظ اور حقائق کی ترجمانی ہے۔ مگر جب یہی تنظیمیں سرکاری گرانٹس، زمینوں، منصوبوں یا مراعات کی تلاش میں سرکاری دفاتر کے چکر لگانے لگیں، تو پھر ان کی غیرجانبداری مشکوک ہو جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صحافت کمزور ہو جاتی ہے، اور معاشرہ اندھیروں میں ڈوبا رہتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ صحافتی ادارے اور تنظیمیں اپنی مالی خودمختاری کو یقینی بنائیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کئی میڈیا ادارے اشتہارات، سبسکرپشن ماڈل، پبلک ڈونیشنز، اور تحقیقاتی فنڈز کے ذریعے اپنے آپ کو مستحکم رکھتے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ ماڈل اختیار کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ صحافی برادری اس سمت میں سنجیدگی سے اقدامات کرے۔
ڈیجیٹل میڈیا کی ترقی نے اب یہ ممکن بنا دیا ہے کہ چھوٹے ادارے بھی بڑے اثرات مرتب کریں، اگر ان کا مواد معیاری، غیرجانبدار اور عوام دوست ہو۔ عوام کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سچائی کی قیمت ہوتی ہے، اور اگر وہ آزاد صحافت چاہتے ہیں، تو انہیں بھی اس کے لیے مالی، اخلاقی اور سماجی حمایت فراہم کرنی ہو گی۔
ادارے کے طور پر ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ صحافت کو سرکاری فنڈز کے جال سے نکالے اور آزاد اداروں کے لیے ایسا ماحول پیدا کرے جہاں وہ خودمختار رہ کر کام کر سکیں۔ نیز، صحافتی تنظیموں کو بھی یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ مختصر مفاد کے لیے جھکنا پسند کریں گی یا طویل المدتی عزت و اعتماد کے لیے کھڑے ہونا چاہیں گی۔
پاکستان کی صحافت کو زندہ رہنے کے لیے فنڈز نہیں، ضمیر کی آزادی درکار ہے۔(بلقیس جہاں)