تحریر: عطا چوہان۔۔
چوکیدار نے کہا تم پریس کلب میں داخل نہیں ہو سکتے ،ایک روز میرا دل چاہا میں گجرانوالہ پریس کلب میں جاکر دیکھوں تو سہی کہ اپنے ہاتھوں سے بنائے پریس کلب کی حالت کیسی ہے فرنیچر کیسا ہے ۔ جب پریس کلب پہنچا تو ساتھ میرا بیٹا تھا پریس کلب کے چوکیدار نے کہا کہ آپ کلب کے اندر نہیں آ سکتے آپ کا داخلہ بند ہے میں نے اپنا تعارف کروایا کہ میرا نام عطا چوہان ہے اور پریس کلب کا میں بنیادی یعنی بانی صدر بھی ہوں اور انتظامیہ سے کلب کی عمارت بھی میں نے ہی لی تھی چوکیدار نے اک دوسرے نوجوان کو بلوایا تو اس نوجوان نے کہا کہ صدر پریس کلب حافظ شاہد منیر کے حکم سے آپ اندر نہیں آ سکتے تو میں نے اپنے پرانے دوستوں کو فون کیا بہت دکھی ہوکر کہ آج مجھے میرے ہی پریس کلب میں داخل ہونے روک دیا گیا ہے فوری طور پر یہ اطلاع دوستو تک پہنچ گئی مجھے پریس کلب میں تو داخل کروالیا گیا ۔مگر آج بھی وہ واقعی وقت مجھے بھولا نہیں جا رہا تھا کہ آج گوجرانولہ پریس کلب کو مسلسل صحافتی آمریت کی بھینٹ چڑھا دیاگیا صحافتی آمریت کے ڈوبی کاش میرے اپنے ہی دوست میری بات مان لیتے جن سے مسلسل رابطے میں تھا مگر انسانی روئیے جن میں آمریت ہو وہاں کمیونٹی ایسے رویوں کو پسند نہیں کرتی بلا آخر آج پریس کلب کی عمارت کو تالے لگوادییے مگر انتخابات نہیں کروائے اب انتظامیہ مداخلت کر چکی اب وہی ہوگا جو انتظامیہ چاہے گی (عطا چوہان۔ سابق بانی صدر گوجرانولہ پریس کلب)