تحریر: انیلہ محمود
پاکستان کے معروف ٹی وی چینل جیو کا موٹو “جیو اور جینے دو” ہر خاص و عام کی زبان پر ہے۔ یہ نعرہ نہ صرف چینل کی پہچان بن چکا ہے بلکہ اسے سماجی ذمہ داری اور انصاف کے علمبردار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن کیا یہ چینل واقعی اپنے موٹو پر عمل کر رہا ہے؟ یا یہ محض ایک خوبصورت نعرہ ہے جو عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے؟ حالیہ واقعات نے اس سوال کو مزید گہرا کر دیا ہے۔
گزشتہ کئی دنوں سے جیو کے اسلام آباد دفتر کے باہر پنجابی پترکاراں یونین کے کارکنان اور جنگ ملازمین احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ واضح ہے کہ جنگ ملازمین کی کئی ماہ سے رکی ہوئی تنخواہیں جاری کی جائیں۔ یہ ایک المیہ ہے کہ جو چینل ہر روز دنیا بھر کی خبریں عوام تک پہنچاتا ہے، وہ اپنے ہی ملازمین کے حقوق سے بے خبر نظر آتا ہے۔ جیو کی گاڑیاں اور رپورٹرز ہر موقع پر کوریج کے لیے پہنچ جاتے ہیں، لیکن اپنے دفتر کے باہر ہونے والے اس احتجاج پر ان کی آنکھیں بند ہیں۔
افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ اپنا حق مانگنے والوں کیخلاف جنگ جیو کی انتظامیہ اوچھے اور گھٹیا ترین ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے، جو کارکن اپنے حق کیلئے آواز اٹھا رہے ہیں ان کی آواز کو دبانے کیلئے ان کارکنوں کیخلاف جھوٹی ایف آئی آرز کاٹی جا رہی ہیں، ان کیخلاف مذہبی منافرت کے جھوٹے مقدمے قائم کئے جا رہے ہیں، ان کو ان کے اہلخانہ کو ہراساں کیا جا رہاہے، ان کی ڈیوٹی کے اوقات میں ان کیلئے مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں، اس طرح کے کئی کیسز جن میں جنگ جیو انتظامیہ کی ہراسمنٹ سامنے آئی اس وقت زیر سماعت بھی ہیں اور یہ ان مقدمات پر بھی اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ صورتحال صرف تنخواہوں کی عدم ادائیگی تک محدود نہیں ہے۔ جیو کے مالک میر خلیل الرحمان کی فائونڈیشن پر بے تحاشہ پیسہ لگایا جاتا ہے۔ یہ فائونڈیشنز سماجی خدمت کے نام پر قائم کی گئی ہیں، لیکن کیا سماجی خدمت کا یہی مطلب ہے کہ اپنے ملازمین کے حقوق پامال کیے جائیں؟ کیا یہی وہ انصاف ہے جس کی تبلیغ جیو ہر روز اپنے پروگراموں میں کرتا ہے؟
جیو کا موٹو “جیو اور جینے دو” دراصل ایک پیغام ہے کہ ہر انسان کو اس کا حق ملنا چاہیے۔ لیکن جب یہی چینل اپنے ملازمین کے حقوق کو نظرانداز کرتا ہے، تو یہ موٹو محض ایک کھوکھلا نعرہ بن کر رہ جاتا ہے۔ اگر جیو واقعی اپنے موٹو پر عمل کرنا چاہتا ہے، تو اسے سب سے پہلے اپنے ملازمین کے ساتھ انصاف کرنا ہوگا۔ ان کی تنخواہیں جاری کرنا ہوں گی، ان کے حقوق کا تحفظ کرنا ہوگا، اور انہیں وہ عزت دینی ہوگی جس کے وہ مستحق ہیں۔
یہ وقت کا تقاضا ہے کہ جیو انتظامیہ اپنے رویے پر نظرثانی کرے۔ اگر چینل واقعی سماجی ذمہ داری کا دعویٰ کرتا ہے، تو اسے اپنے ملازمین کے ساتھ بھی وہی انصاف کرنا ہوگا جو وہ معاشرے کے دیگر طبقات کے لیے مانگتا ہے۔ ورنہ یہ موٹو محض ایک دکھاوے کی چیز بن کر رہ جائے گا، اور عوام کی نظروں میں جیو کی ساکھ مجروح ہوگی۔
آخر میں، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ “جیو اور جینے دو” کا نعرہ تب ہی معنی رکھتا ہے جب یہ چینل خود اپنے اصولوں پر عمل کرے۔ ورنہ یہ محض ایک خوبصورت جملہ ہے، جس کی کوئی حقیقت نہیں۔(انیلہ محمود)۔۔
(اس تحریر کے مندرجات سے عمران جونیئرڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔علی عمران جونیئر)۔۔