عدالتی فیصلے کی کھلی خلاف ورزی اور انصاف کے تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے، تھانہ وارث خان پولیس نے جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن کا ساتھ دیتے ہوئے نیشنل انڈسٹریل ریلیشنز کمیشن (این آئی آر سی) کی جانب سے بحال کیے گئے 66 ملازمین کو ان کے دفتر میں داخلے سے روک دیا۔عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کروانے کی بجائے، پولیس کی بھاری نفری روزنامہ جنگ راولپنڈی کے مرکزی دروازے پر تعینات کر دی گئی تاکہ ملازمین کو دفتر میں داخل ہونے اور اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے سے روکا جا سکے۔ایس ایچ او تھانہ وارث نے یونین رہنماؤں سے کہا کہ ۔۔آپ دوبارہ عدالت جائیں اور توہین عدالت کی درخواست دائر کریں، ہم آپ کو اندر نہیں جانے دیں گے،عدالت کو بتائیں کہ جنگ انتظامیہ عدالتی احکامات نہیں مان رہی ۔آل پاکستان جنگ پبلیکیشن اینڈ پریس ایمپلائز یونین کے رہنماؤں نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت نے انہیں بحال کیا ہے اور انہوں نے ڈیوٹی پر واپس آنا ہے۔یونین کے صدر عمران فاروق بٹ کا کہنا تھا کہ ۔۔عدالت کے احکامات کی پاسداری کروائیں، ہمیں بحال کیا گیا ہے اور کام پر واپس آنے کا حکم دیا گیا ہے۔یونین نے پولیس کی موجودگی میں پرامن طریقے سے دفتر میں داخل ہونے کی پیشکش کی اور ایس ایچ او سے کہا کہ جنگ انتظامیہ سے کہیں کہ وہ عدالتی حکم کو تحریری طور پر رد کرے۔اس پر ایس ایچ او نے کہا کہ میں آپ کو مشورہ دے رہا ہوں کہ اس معاملے کو یہیں ختم کریں۔ میری جنگ انتظامیہ سے بات ہو چکی ہے، وہ عدالتی فیصلے کو نہیں مان رہے۔ ہم یہاں دفتر کی حفاظت کے لیے موجود ہیں۔اگر آپ نے زبردستی کی تو آپ کے خلاف دوبارہ مقدمہ درج ہو سکتا ہے۔عمران فاروق بٹ نے پولیس سے کہا کہ ۔۔آپ عدالتی فیصلے کے راستے میں رکاوٹ بن رہے ہیں اور فریق بن چکے ہیں،جس پر ایس ایچ او نے جواب دیا، ان کا کام صرف مشورہ دینا ہے اور وہ امن و امان کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔یونین نے ایس پی وارث خان سرکل، سی پی او راولپنڈی، آر پی او راولپنڈی اور آئی جی پنجاب سے اپیل کی کہ وہ تھانہ وارث خان کی جانبداری کا نوٹس لیں۔