shartiya meetha | Imran Junior

جدید تحقیق

علی عمران جونیئر

دوستو،دنیا بھر میں نت نئی تحقیقات ہوتی رہتی ہیں، پڑوسی ملک کا سیارچہ چاند پر پہنچ چکا ہے، لیکن ہم ابھی تک ان باتوں میں الجھے ہوئے ہیں کہ بابر اعظم کی فارم واپس کیوں نہیں آرہی، پاکستان کی بالنگ کیوں نہیں چل پارہی؟ کیا ہم ورلڈ کپ جیت سکیں گے یا نہیں؟ اس دنیا میں صرف کرکٹ ہی باقی نہیں رہ گئی، اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔۔ بطور قوم ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ ہم نے اب تک اپنی ترجیحات کا تعین نہیں کیا ہے۔پیٹرول تیس روپے لیٹر مہنگا ہوجاتا ہے تو ہم سیاپا ڈالنا شروع کردیتے ہیں (وہ بھی صرف سوشل میڈیا پر) میدان عمل میں کچھ نہیں کرتے، پیٹرول اگر دو روپے سستا ہوجائے تو خوش ہوجاتے ہیں۔ بجلی کی دن میں چار بار لوڈشیڈنگ ہو، آدھے دن گھر میں لائٹ نہ ہوتو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن جیسے ہی لائٹ آتی ہے، ہمارے چہرے کھل اٹھتے ہیں۔اپنے آس پاس اگر آپ دیکھیں تو ایسی لاتعداد باتیں پتہ لگیں گی کہ ہم ابھی تک ایک لاابالی، لاپرواہ اور غیرسنجیدہ قوم ہیں۔بات تحقیقات کی ہورہی ہے۔ دنیا بھر میں ایسی انوکھی تحقیق ہورہی ہے، ہرشعبے پر نظر رکھی جارہی ہے کہ آپ جب ان تحقیقات کے حوالے سے پڑھیں گے تواحساس ہوگا کہ ہم اب تک لاعلمی کا شکار کیوں رہے؟ ہم گاہے بگاہے ایسی انوکھی اور دلچسپ قسم کی تحقیقات سامنے لاتے رہتے ہیں۔آج بھی کچھ دلچسپ چیزیں آپ لوگوں کی خدمت میں حاضر ہے۔

ماہرین کی ایک ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہ کرائے کے گھروں میں رہنے والے لوگ ذاتی گھروں میں رہنے والے لوگوں کے مقابلے جلد بڑھاپے کا شکار ہوتے ہیں۔ برطانیہ میں کرائے کے گھروں میں رہنے والوں پر تحقیق کی گئی تو منفرد انکشافات ہوئے کہ کرائے پر رہنا انسان کو اتنا نقصان پہنچاتا ہے جتنا سگریٹ نوشی بھی نہیں پہنچاتی۔ بے روز گار رہنے والے بھی اتنی جلدی بوڑھے نہیں ہوتے جتنی جلدی کرائے کے مکانوں میں رہنے والے ہوجاتے ہیں۔ماہرین نے تحقیق کیلئے 46 سال سے زائد عمر کے کرائے پر رہنے والے لوگوں کا موازنہ 46 سال کے ہی ان افراد سے کیا جو ذاتی مکانوں کے مالک تھے۔ اس دوران سائنس دانوں نے بلڈ ٹیسٹ کیے، صفائی ستھرائی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی جائزہ لیا۔ ڈیٹا کے جائزے کے بعد یہ نتائج بھی ملے کہ کرائے کے گھروں میں رہنے والے ذہنی مسائل کا بھی سامنا کرتے ہیں۔۔ بات بڑھاپے کی ہورہی ہے تو پاکستان میں ہونے والے ایک تازہ سروے کے متعلق بھی بتاتے چلیں۔۔پاکستان کی ریسرج اور کنسلٹینسی فرم ‘گیلپ’ کے ایک تازہ سروے کے مطابق ہر 10 میں سے 3 پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بالوں کو رنگنے کے لیے ‘ہیئر ڈائی’ کا استعمال کرتے ہیں۔سروے کے لیے منتخب مردوں اور خواتین سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ ‘کیا آپ اپنے بالوں کو رنگتے ہیں؟اس سوال کے جواب میں 32 فیصد مردوں اور خواتین کا کہنا تھا کہ ‘ہاں، ہم اپنے بالوں کو رنگ کرتے ہیں’ جبکہ 68 فیصد کے مطابق وہ اپنے بالوں کو رنگ نہیں کرتے۔یہ سروے پاکستان کے چاروں صوبوں کی دیہی اور شہری آبادی کے 853 مردوں اور خواتین سے 24 سے 28 اگست 2023 کے دوران کیا گیا تھا۔گیلپ’ کا کہنا ہے کہ ‘اس سروے میں غلطی کا تخمینہ 2 سے 3 فیصد تک ہو سکتا ہے، سروے میں ان مردوں اور خواتین کی رائے ٹیلی فون کال کے ذریعے معلوم کی گئی تھی۔۔

برطانیہ میں نکمے نوجوانوں کی فہرست جاری کردی گئی، جس میں پاکستانیوں نے میدان مار لیا، نوجوانوں کی اکثریت نہ تو ملازمت پر ہے اور نہ ہی تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ برطانوی حکومت نے نکمے نوجوانوں کے اعداد وشمار جاری کردیے، جن میں پاکستانی نژاد برطانوی نوجوان نہ تو تعلیم اور نہ ہی نوکری کرنے والے میں سرفہرست ہیں۔برطانوی حکومت کے سالانہ سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ برطانیہ میں 16 سے 24 سال کے پاکستانی نژاد نوجوانوں کی اکثریت نہ تو ملازمت پر ہے اور نہ ہی تعلیم حاصل کر رہی ہے۔سروے رپورٹ میں بتایا گیا کہ برطانیہ میں اوسطاً ساڑھے گیارہ فیصد نوجوان نہ تو کسی تعلیم و تربیتی پروگرام کا حصہ ہیں اور نہ ہی کسی روزگار سے منسلک ہیں۔رپورٹ کے مطابق ان نوجوانوں میں سب سے زیادہ شرح پاکستانی نژاد نوجوانوں کی ہے، جو 14.3 فیصد ہے، جس کے بعد بارہ فیصد بنگلہ دیشی نژاد نوجوان ہے۔سروے رپورٹ میں 11.7 فیصد برطانوی سفید فام، 11.5 فیصد سیاہ فام، جبکہ 11.3 فیصد دیگر ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے برطانوی نوجوان تعلیم اور تربیت سمیت کسی ملازمت کا حصہ نہیں۔اعداد و شمار کے مطابق 16 سے 24 سال کی عمر کے بھارتی اور چینی نوجوان برطانیہ میں مقیم دیگر قومیتوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے مقابلے میں تعلیم، تربیت اور ملازمت میں آگے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارتی نژاد 7.3 فیصد اور چینی نژاد 4.5 فیصد نوجوان تعلیم اور ملازمت سے دور ہیں۔

پاکستان میں 48 فیصد خواتین ناخواندہ ہیں 79 فیصد افرادی قوت کا حصہ نہیں ہیں اور خواتین کی مجموعی آبادی سے صرف 10 فیصد عورتیں اپنی صحت کے بارے میں خود فیصلہ کر سکتی ہیں، ڈاکٹر علی میر نے ایک میٹنگ میں بتایاکہ گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس 2 202 کے درجہ بندی میں پاکستان نچلے درجوں پر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں صنفی مساوات کی شرح بہت کم ہے،پاکستان میں صنفی عدم مساوات اس لئے بھی زیادہ گہری ہے کہ ملک میں صرف 21فیصد خواتین لیبر فورس کا حصہ ہیں جبکہ قومی اسمبلی میں خواتین کی سیٹوں کی شرح بھی کم ہے، ڈاکٹر میر نے صحافیوں پر زور دیا کہ وہ بیک وقت تعلیم، صحت بشمول خاندانی منصوبہ بندی اور قومی سطح پر خواتین کی افرادی قوت میں موثر شمولیت پر توجہ دے کر ترقی کے اہداف کے حصول میں اپنا فعال کردار ادا کریں پاپولیشن کونسل کی سینئر پراجیکٹ آفیسر ام ِکلثوم نے خواتین کی تعلیم، صحت اور لیبر فورس کی شرکت کے اعداد و شمار کا علاقائی سطح پر موازنہ پیش کرتے ہوئے صحافیوں پر زور دیا کہ وہ اپنی خبروں کے ذریعے ان مسائل پر شعوری آگاہی کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں 37 فیصد لڑکیاں اسکول سے باہر ہیں جن کے اسکولوں میں داخلے اور ثانوی سطح تک مفت تعلیم کی فراہمی کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی خوراک، تعلیم اور صحت کی ضروریات کو پورا کرنے اور خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے لئے میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا پاکستانی خواتین کو مساوی مواقع فراہم کرکے اور ان کی تولیدی صحت کے حقوق کے بارے میں آگاہی پیدا کرکے انہیں بااختیار بنانا بہت ضروری ہے تاکہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو پائیدار سطح تک لا یاجا سکے اور آبادی اوروسائل میں توازن پیدا کیا جاسکے۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ڈرو اس وقت سے ، جب قومی کرکٹ ٹیم سے سیاست ختم ہوجائے گی، جیسے اس ملک سے ختم ہوگئی۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں