bhaarti musalmano ki badtareen haalat zaar

بھارتی مسلمانوں کی بدترین حالت زار

تحریر: جاوید چودھری۔۔

مجھے 2014 میں دہلی جانے کا اتفاق ہوا تھا‘ میں شاہی مسجد بھی گیا‘ مسجد کے اردگرد مسلمانوں کے گھر اور دکانیں ہیں‘ آپ یقین کریں ان کی حالت دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ گلیوں میں گرد‘ کیچڑ اور کوڑا کرکٹ کے انبار تھے‘ دکانیں اور مکان گندے تھے اور ہر چہرے پر بھی عسرت اور غربت ملی ہوئی تھی‘ مسلمانوں کی آنکھیں اندر دھنسی تھیں اور چہرے پچکے ہوئے تھے‘ میں نے وہاں گھومتے پھرتے اندازہ کیا مسلمان اپنے ناموں کے بجائے ’’نک نیم‘‘ سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں‘ میں نے جس سے بھی پوچھا‘ اس نے اپنا جامو‘ راموں‘ میمو‘ شامو اور لیلوں بتایا‘ میرے ساتھ میرے ایک سکھ دوست تھے‘ یہ دلی وال ہیں‘ ان کے بزرگ تقسیم کے وقت پشاور سے نکل کر دہلی میں آباد ہو گئے۔

سردار صاحب اردو‘ پنجابی اور پشتو تینوں زبانیں جانتے تھے‘ میں نے ان سے مسلمانوں کے نک نیمز کی وجہ پوچھی تو انھوں نے عجیب جواب دیا‘ ان کا کہنا تھا مسلمان بھارت میں خود کو محفوظ نہیں سمجھتے لہٰذا یہ مسلمان ناموں کے ساتھ ساتھ ایسے کامن نام بھی رکھ لیتے ہیں جن سے ان کے مذہب کا اندازہ نہ ہو سکے‘ یہ اگر اپنا نام محمد بتائیں گے تو پکڑے جائیں گے لہٰذا یہ ایک دوسرے کو میمو کہتے ہیں‘ اسی طرح یہاں عمر امر‘ جہانگیر گیرو اور زینب زینو بن جاتی ہے‘ آپ یقین کریں میں اس کے بعد دیر تک گلی میں پھرتے مسلمانوں کو دیکھتا رہا اور ان کی بے چارگی پر افسوس کرتا رہا‘ میں نے اس کے بعد امام صاحب سے بھی ملاقات کی‘ یہ مجھے اٹھ کر ملے اور دیر تک میرا ہاتھ پکڑ کر کھڑے رہے۔

ان کا کہنا تھا تم لوگ خوش قسمت ہو کم از کم بے خوف ہو کر پھرتے ہو جب کہ ہمیں دیکھو ہم اپنے گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے‘امام صاحب کی بات درست تھی کیوں کہ بھارت معاشی لحاظ سے ترقی کر رہا تھا لیکن مسلمانوں کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی تھی‘ آج حالات 2014 سے بھی بدتر ہیں‘ مسلمانوں کے لیے نوکریاں نہ ہونے کے برابر ہیں‘ بزنس میں یہ کبھی تھے اور نہ آج ہیں‘ ان کی تعلیم بھی واجبی ہوتی ہے‘ کیوں کہ اول انھیں اسکولوں میں داخلہ نہیں ملتا اور اگر مل جائے تو ہندو لڑکے انھیں بے عزت کر کے بھگا دیتے ہیں اور سیاست کے دروازے بھی ان پر بند ہیں‘ کانگریس میں پھر بھی مسلمانوں کی گنجائش تھی لیکن بی جے پی میں ایک بھی مسلمان ایم پی نہیں ہے لہٰذا پھر بھارت میں مسلمانوں کے لیے صرف تین شعبے بچ جاتے ہیں۔

یہ صفائی ستھرائی‘ مزدوری‘ مکینکی‘ کاشتکاری یا پھر ڈرائیوری کریں‘ دوسرا فلم انڈسٹری میں ان کی کھپت ہوتی تھی‘ماضی میں اردو زبان‘ شاعری‘ موسیقی اور اداکاری میں مسلمانوں کی گنجائش ہوتی تھی لیکن جب سے سینما ساؤتھ کی طرف شفٹ ہوا یہ فیلڈ بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی اور مسلمانوں کے لیے تیسرا پیشہ یا شعبہ کرائم رہ گیا تھا چناں چہ ان کے پاس سروائیول کے لیے ڈان یا بھائی بننے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا‘ آپ کو بھارت میں زیادہ تر بھائی اور دہشت گرد مسلمان کیوں ملتے ہیں؟ کیوں کہ مسلمانوں کے پاس کوئی دوسرا آپشن موجود ہی نہیں۔

جب ان کی لڑکیوں کو ہندو اٹھا کر لے جائیں گے یا گائے کا گوشت کھانے کا الزام لگا کر کسی بھی نوجوان کو سرعام قتل کر دیا جائے گا یا پھرمسجدیں گرا کر مندر بنا دیے جائیں گے یا پھر مسلمانوں کو سرعام تغلق یا دہشت گرد کہا جائے گا تو پھر ان کے پاس کیا آپشن بچ جاتا ہے؟ اور بھارت میں اس وقت یہی ہو رہا ہے‘ ہمارے ایک سابق آرمی چیف کو یورپ میں کسی بھارتی مسلمان نے روک کر کہا تھا ’’سر آپ جب کشمیر میں کچھ کرتے ہیں تو اس کا خمیازہ بھارت کے مسلمانوں کو بھگتنا پڑتا ہے‘ آپ کچھ بھی کرنے سے پہلے ہم 25 کروڑ مسلمانوں کے بارے میں ضرور سوچ لیا کریں‘‘ اس بے چارے کی بات سو فیصد درست تھی‘ ہم سب ایک کنٹرولڈ اور بہتر ماحول میں رہ رہے ہیں جب کہ بھارتی مسلمان اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں‘ یہ شاہ جہاں کی بنائی مسجد کے سائے میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔

میری حکومت سے درخواست ہے ہم سب میں سے جو بھی شخص پاکستان کے خلاف بات کرے آپ اسے چند دنوں کے لیے بھارت بھجوا ئیں اور اسے مسلمانوں کے کسی محلے میں ٹھہرا دیں‘ اسے تب پاکستان کی قدر ہو گی‘ وہ اس وقت جانے گا ہم کتنی بڑی جنت میں رہ رہے ہیں‘اسے اس وقت معلوم ہو گا اﷲ تعالیٰ نے ہم 25 کروڑ مسلمانوں پر کتنا رحم‘ کتنا کرم کیا ہے۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں