aik sabiq bol mulazim ki sachai

بول کا اصل چہرہ: ایک سچ جو چھپایا گیا

تحریر: سید سجاد حسین زیدی۔۔

جب میں نے عمران جونیئر ڈاٹ کام  پر اپنی پہلی پوسٹ لگائی، جس میں صرف اپنے حق کی بات کی، تو ایک جعلی آئی ڈی سے میرے خلاف الزامات لگا دیے گئے۔ جب میں نے ان الزامات کا مدلل جواب دیا، تو حسبِ معمول کوئی جواب نہیں آیا، کیونکہ جھوٹ کا دفاع ممکن ہی نہیں ہوتا۔

میں نے خود بھی سوچا کہ شاید یہ پوسٹ مجھے نہیں لگانی چاہیے تھی، لیکن پھر احساس ہوا کہ بول جیسے غیر پیشہ ور ادارے کے اصل چہرے کو عوام کے سامنے لانا ضروری ہے۔ جیسے ہی پوسٹ اپ لوڈ ہوئی، بول کی پوری ٹیم اکٹھی ہو گئی، اور سوچنے لگی کہ اس 72 ہزار روپے تنخواہ والے بندے سے کیسے نمٹا جائے؟ کیونکہ میں نے ان کے کسی ’باس‘ کا ذاتی نقصان تو نہیں کیا، صرف سچ کہا۔

جیسا کہ سب جانتے ہیں، بول میں گزشتہ کئی سالوں سے اندرونی سیاسی کھینچا تانی جاری ہے۔ ہر نئے آنے والے ہیڈ نے اپنے خاص لوگوں کا ایک ٹولہ بنا لیا۔ جب جی ایم آپریشنز  کو ان کے عہدے سے ہٹایا گیا، تو ان کا نوٹیفکیشن 2 سے 3 بار حذف کیا گیا، اور ایسی زبان استعمال ہوئی جو کسی بھی مہذب یا پیشہ ورایچ آر ہیڈ کی نہیں ہوسکتی۔۔

مضحکہ خیز حد تک، کچھ لوگ تو خوشیاں منانے کے لیے ڈائریکٹر نیوز کے پاس جا کر کہتے رہے: “سر، دیکھیں نا بول کا آن لائن پورٹل۔۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ بول کے مالکان کو سب کچھ معلوم ہوتا ہے، مگر خاموشی اختیار کرتے ہیں۔

اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ مجھے ایک وکیل کے ذریعے نوٹس بھیجا گیا ہے، جس میں الٹا مجھے ہی بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ دعویٰ کیا گیا کہ میری پرانی پوسٹ میں سب کچھ جھوٹ ہے اور اگر نہ ہٹایا تو وہ میرے خلاف   ہتک عزت کا  مقدمہ کریں گے۔یہ نوٹس بھی مجھے واٹس ایپ پر بھیجا گیا، لہٰذا میں نے بھی واٹس ایپ پر جواب دیا — کیونکہ ہم غریب لوگ خط و کتابت کے خرچ نہیں اٹھا سکتے۔ جواب دیا، لیکن ان کی وکیل صاحبہ (جو خود بھی انہی جیسی نکلیں) نے کوئی بات کرنا یا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔

میں نے بارہا بول کے کئی لوگوں سے رابطہ کیا، جن میں صوفیہ میڈم، سمیر چشتی، شاہد جاوید، شفقٰت صاحب، علی صدیقی، اور عمر خان شامل ہیں — کچھ نے تو مجھے بلاک کر دیا۔

پھر بروز پیر 28 اپریل 2025 کو، میں نے خود بول کے دفتر جا کر اس معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کی آخری کوشش کی۔ سب کو میسج کر کے بتایا کہ میں آ گیا ہوں اور چاہتا ہوں کہ میری تنخواہ ادا کر دی جائے تاکہ معاملہ ختم ہو جائے — بلکہ میں شکریے کا نوٹ بھی لکھنے کو تیار تھا۔

ایک پیشہ ور انسان کی حیثیت سے میں آفس کے گیٹ سے اندر داخل ہوا، وہاں ایڈمن کے آفتاب صاحب ملے۔ اُن سے کہا کہ مجھے ملاقات کرنی ہے، انہوں نے کہا کہ آپ انتظار کریں، میں کہتا ہوں۔ میں تقریباً دو گھنٹے ریسپشن پر بیٹھا رہا، سب کو کالز اور میسجز کرتا رہا، مگر کسی نے جواب دینا گوارا نہ کیا۔آخرکار آفتاب صاحب نے فون کا جواب دینا بھی بند کر دیا، اور سیکیورٹی گارڈز کے ذریعے مجھے دفتر سے باہر نکال دیا گیا۔

یہ ہے بول کا “پیشہ ورانہ ادارہ”۔

دفتر سے باہر آ کر میں نے کچھ لوگوں کو وائس نوٹس بھیجے، ان کی وکیل کو اپنی لوکیشن بھیجی، لیکن حسبِ سابق کوئی جواب نہیں آیا۔

آج تھک ہار کر میں آپ سب کی خدمت میں حاضر ہوں، اور اس امید پر ہوں کہ ان شاء اللہ ایک دن بول جیسے ادارے میں بھی کوئی پیشہ ورانہ لوگ آئیں گے جو ادارے کو سیاست کی نذر ہونے سے بچائیں گے۔آپ تمام دوستوں کی حمایت کا منتظر ہوں۔(سید سجاد حسین زیدی)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں