تحریر: عارف خان۔۔
بخت علی عباسی دنیا اخبار کراچی کی بندش کے بعد سے بے روز گار تھے اس دوران انہوں نے انتہائی کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزاری اور گھر کا چولہا جلانے اور پیٹ پالنے کے لیے گھر کے قریب چپس بنانے کا کام بھی شروع جو نا چل سکا۔مرحوم کے دوستوں اور مالک مکان ریاض احمد سے پتا چلا کہ بخت علی عباسی کا دل بیٹری سے دھڑکتا تھا دل کی دھڑکن بند ہونے سے قبل وہ دل کے اسپتال این آئی سی وی ڈی میں داخل تھے اور زیر علاج تھے تاہم بیٹری دل کا ساتھ چھوڑ گئی اور وہ جانبر نا ہوسکے۔مرحوم کے دوستوں اور مالک مکان سے مزید پتا چلا بے روزگاری کے سخت اور مشکل حالات اور زندگی میں انہیں کوئی پوچھنے نہیں آیا حتیٰ کہ ان کی تنظیم بھی نہیں آئی تاہم مرنے کے بعد لوگ کفن دفن کا انتظام کر کے آ گئے تھے۔ریاض احمد نے کہا کہ بخت علی عباسی میرے گھر میں کرائے دار تھا اس کے آگے پیچھے کوئی نہیں دو کم سن بیٹے ہیں اس کی بیوہ اسی مکان میں عدت پوری کرے گی اس نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ بخت علی عباسی کا چالیسواں اسی گھر میں کرے گا جس میں اس کے دوست صحافیوں اور اس کی تنظیم کے لوگوں کو بھی بلائے گا اور ان سے درخواست کرے گا کہ وہ بخت علی عباسی کی بیوہ اور کمسن بچوں کے لیے کچھ کریں تاکہ وہ عزت سے ژندگی گزار سکیں۔اس کا یہ جذبہ دیکھ کر میرے دل سے بے ساختہ نکلا کہ کاش صحافی تنظیموں کی نام نہاد راہنما ریاض احمد ہوتے اور کرائے دار کا اتنا درد رکھتے۔خیر اندیش۔۔(محمد عارف خان)۔۔۔