علی عمران جونیئر
دوستو،ہمارے پڑوسی ملک انڈیا نے اپنا نام تبدیل کرکے ”بھارت” رکھ لیا ہے۔ اب اسے انڈیا اور ہندوستان نہیں کہاجائے گا۔ باباجی کہتے ہیں۔ دشمن کوئی بھی نام رکھ لے، کہلائے گا دشمن ہی ۔۔جیسے بیوی کو بیگم، زوجہ، اہلیہ ،بڈھی جیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے لیکن ہوتی وہ بیوی ہی ہے۔ہمارے کسی زندہ دل دوست نے ہمیں واٹس ایپ کیا کہ بیویوں کی تعداد کا اس کے ناموں کے حروف کی تعداد سے ہی اشارہ ملتا ہے۔بیگم میں چار حروف۔۔ب،ی،گ،م۔۔بیوی میں چار حروف، ب،ی،و،ی۔۔زوجہ میں چار حروف۔۔ز ،و ، ج ،ہ۔۔پشتو میں بیگم کو ”ناوی” کہتے ہیں ناوی میں بھی چار حروف۔۔ن،ا،و ، ی۔۔نسائ(عربی) میںچارحروف ن،س،ا،ئ۔۔بڈھی(پنجابی) میں چارحروف۔۔ب،ڈ،ھ،ی۔۔وائف (انگریزی) میں چار حروف و،ا،ئ،ف۔۔حتیٰ کہ ان سب ناموں سے بننے والی دلہن میں بھی چار حروف د،ل،ہ،ن۔۔ان سب ناموں کے حروف کی تعداد سے یہی اشارہ ملتا ہے کہ بیویاں چار ہی ہوں۔۔
بیویاں ہوشیار بھی ہوتی ہیں، معصوم و سادہ ، تیزطرار،چالاک، عیار اور فتنہ پرور بھی۔۔ ہمارے ایک دوست کی بیگم اس وقت تک کھانا نہیں کھاتی تھیں جب تک انکے شوہر نہیں آجاتے۔ سارے محلے کی عورتیں اسکی تعریف کرتی تھیں، ایک دن کسی پڑوسن سے برداشت نہ ہوا تو پوچھ ہی لیا۔۔ بہن کیسے برداشت کرتی ہو؟۔۔ اس عورت نے جواب دیا۔۔کیا کروں وہ آکر پکاتے ہیں تو کھاتی ہوں۔یہ تھی ایک چالاک بیوی ، اب ذرا ایک معصوم و سادہ بیوی کی بھی سن لیں جس کے گھر کا فریج خراب ہوگیا تو ایک کولنگ سروسز والے کو فون لگادیا۔۔ ہیلو ،اے بی سی کولنگ سروسز۔۔ خاتون نے بولنا شروع کیا۔ جی وہ ہم نے فریج ٹھیک کرانا ہے اپنا۔ سامنے سے پوچھا گیا، کیا ہوا فریج کو۔۔جواب دیا۔۔ جی وہ خراب ہوگیا ہے۔۔ پوچھا گیا، کیا ہوا ؟ چل نہیں رہا؟؟ جواب دیاگیا، نہیں جی، وہ تو ایک ہی جگہ کھڑا رہتا ہے۔۔پوچھا گیا، اوہو، آپ سمجھی نہیں،اس میں سے کوئی آواز آتی ہے؟ خاتون نے کہا۔۔ہاں جی ککڑوں کوں کی آواز آتی ہے۔۔پوچھا گیا، ککڑوں کوں؟ کیا مطلب؟؟ محترمہ بولیں۔۔کیونکہ ہم نے اس میں ککڑ جو بند کیا ہوا ہے۔کمال کرتی ہیں آپ بھی بی بی، آپ نے ککڑ کو فریج میں بند کردیا۔۔ محترمہ بولیں۔۔تو کیا کرتی”کھڈا” فارغ نہیں تھا۔۔ پوچھا گیا، کیوں کھڈے میں کیا ہے؟ جواب دیاگیا، منے کے ابا۔ پوچھا گیا، لاحول ولا قوة،کھڈے میں منے کے ابا کیا کر رہے ہیں؟محترمہ نے کہا۔۔وہ انھیں نمونیہ ہوگیا تھا ڈاکٹر نے کہا تھا ان کو گرم جگہ پر رکھیں۔۔سامنے سے کہاگیا، اوہو، باہر نکالیں۔۔ پوچھا گیا، ککڑ کو؟؟ آگے سے کہا گیا، نہیں منے کے ابا کو۔۔محترمہ بولیں۔۔اچھا اچھا نکالتی ہوں۔۔آگے سے پھر کہاگیا۔۔ اور دیکھئے پیچھے کون سی کمپنی کا کمپریسر لگا ہوا ہے؟ ۔۔محتر مہ بولیں۔۔ منے کے ابا کو؟؟ ۔۔کہا گیا، او بی بی، فریج کو۔۔ محترمہ چیخی،ہائے میں مر گئی میری ہانڈی جل گئی،پورے گھر میں دھواں ہی دھواں ہوگیا ہے۔۔کہاگیا۔۔آپ اس پر جلدی سے پانی ڈالیے۔۔محترمہ بولی، جی ڈال دیا،اب ٹھیک ہے؟۔ آگے سے پوچھا گیا، پانی کس پر ڈالا؟محترمہ نے معصومیت سے کہا۔۔منے کے ابا پر۔۔آگے سے فون پر لاحول کی آواز گونجی اور فون بند کردیاگیا۔۔
کالج اور یونیورسٹی تک دونوں کی محبت پروان چڑھتی رہی مگر پھر اچانک رستے جدا ہوگئے۔۔کالج ری یونین کی تقریب میں اچانک دونوں ملے۔ بات چیت میں پتا چلا کہ خاتون 4 سال پہلے 65 سال کی عمر میں بیوہ ہوئی تھیں۔جب کہ موصوف خود بھی 70 سال کی عمر میں 5 سال پہلے ہی رنڈوے ہوئے تھے۔موقع غنیمت جان کر صاحب نے پوچھا۔۔کیا آپ مجھ سے شادی کر سکتی ہیں؟۔۔خاتون نے کچھ لمحے توقّف کے بعد ہاں کر دی۔دو دن گزر گئے تو صاحب کو خیال آیا کہ میں نے تقریب میں شادی کا پوچھا تھا، تو پتہ نہیں خاتون نے ہاں کہا تھا یا ناں؟کافی دیر تک یاد نہ آنے پر خاتون کو فون کیا اور شرماتے ہوئے پوچھا، میں نے آپ کو شادی کا پروپوزل دیا تھا مگر اس عمر میں یادداشت چلی گئی ہے اور کچھ یاد نہیں آ رہا کہ آپ نے ہاں کہا تھا یا ناں؟خاتون نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔۔ہاں ہاں،ہاںکہا تھا۔۔ اور یقین مانیں میں بھی دو دن سے سوچ رہی ہوں مجھے پروپوز کس نے کیا تھا؟۔۔شوہر بستر مرگ پہ پڑا اپنے آخری وقت سے لڑ رہا تھا،اس کی باوفا بیوی اپنے محبوب شوہر کے پاس خدشات کے سمندر میں غرق بیٹھی تھی۔اچانک اس نے فرط محبت سے شوہر کا ہاتھ تھاما تو آنسو اس کے رخساروں پہ بہہ نکلے،دعاؤں کی سرگوشی اور محبت بھرے لمس نے شوہر کو عالم مدہوشی سے بیدار کرڈالا۔تھرتھراتے پژمردہ لبوں سے مخاطب ہوا۔۔سویٹ ہارٹ،اس آخری وقت میں کچھ کہناچاہتا ہوں۔۔بیوی نے شدت غم سے اپنے ہونٹ دانتوں تلے دباتے ہوئے بڑی مشکل سے کہا۔۔نہیں سرتاج، آپ بس آرام کریں۔شوہر گڑگڑایا۔۔خدا کیلئے سن لو،ورنہ میری روح بے چین رہے گی۔۔میں تم سے بے وفائی کرتا رہا ہوں،میری سیکریٹری،ہماری پڑوسن،تمہاری سہیلی اور۔۔اور۔۔بیوی نے ہچکیاں لیتے ہوئے اپنی ہتھیلی شوہر کے منہ پر رکھتے ہوئے کہا۔۔میں سب کچھ جانتی تھی سویٹ ہارٹ،آپ پریشان نہ ہوں،اسی لئے آپ کو زہر دیا ہے۔
ہر علاقے کی لڑکی کا اپنا الگ لائف اسٹائل ہوتاہے،جسے وہ شادی کے بعد جاری رکھتی ہے۔ کورنگی، لانڈھی، ملیر، شاہ فیصل کالونی، بلدیہ، نیوکراچی کی بیویوں کے بولنے کے انداز سے پتہ لگ جاتا ہے کہ ان کا تعلق کسی مضافاتی علاقے سے ہے، ڈیفنس، کلفٹن، گلشن اقبال وغیرہ کی بیویوںکے ہرجملے میں انگریزی کا اتنی کثرت سے استعمال ہوتا ہے کہ اگر اتنی کثرت سے وہ عربی کا استعمال کرلیں تو یقینی طور پر جنت ان پر واجب ہوجائے۔مضافاقی علاقے کی بیوی ہو یا کسی پوش علاقے کی۔۔اپنے شوہروں سے فرمائشیں تو سب ہی کرتی ہیں۔۔ ایک بیوی نے اپنے شوہر سے کہا۔۔ میکڈونلڈز پر لنچ کرادو ناں۔۔شوہر نے کہا ، تم میکڈونلڈز کی اسپیلنگ بتادو تو لنچ پکا بلکہ گھروالوں کیلئے پارسل بھی کرادوں گا۔۔وہ تھوڑی سے گھبرائی پھر کہنے لگی ، چلو کے ایف سی پر ہی کچھ کھلادو۔۔شوہر نے کہا، اگر تم یہ بتادو کہ کے ایف سی کس کا مخفف ہے تو جو بولوگی وہ کھلاؤں گا۔۔وہ تھوڑی مزید پریشان ہوئی، کہنے لگی۔۔ چلو پھر اسٹوڈنٹ کی بریانی ہی کھلادو۔۔شوہر نے کہا، اسٹوڈنٹ کا مطلب بتادو تو جتنی مرضی بریانی کھانا گھر والوں کیلئے بھی لے آنا۔۔اس کے چہرے سے ہوائیاں اڑنے لگیں۔۔بولی۔۔مزیدار حلیم ہی کھلادو برنس روڈ سے ۔۔ توشوہر بولا۔۔اگر برنس روڈ بالکل ٹھیک ٹھیک لکھوگی تو حلیم لازمی کھلاؤں گا۔۔بیوی تنگ آکر بولی۔۔چل رہنے دے،پھر گٹکا ہی کھلادے جیب سے نکال کر۔۔شوہر خوش ہوکر بولا۔۔جانو ایک ہی ہے آدھا آدھا کھالیتے ہیں۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔حد سے زیادہ سمجھدار زندگی بور کردیتی ہے، اس لئے شرارتیں کریں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔