Audio Leaks par tehqeqaat kyun zaroori

آڈیو لیکس پر تحقیقات کیوں ضروری؟

تحریر: مزمل سہروردی۔۔

آڈیو لیکس پر بنائے گئے کمیشن کو پہلے ہی سپریم کورٹ کام کرنے سے روک چکی ہے۔ ادھر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور بشریٰ بی بی نے بھی آڈیو لیکس کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہوا ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی آڈیو کمیشن کی جانب سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے اور بشریٰ بی بی کو بھیجے جانے والے نوٹسز پر حکم امتناعی جاری کیا ہوا ہے۔سپریم کورٹ نے تو حکم امتناعی کے بعد کیس دوبارہ سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا۔ شاید سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال بس تحقیقات ہی روکنا چاہتے تھے۔

حالانکہ ان کی ساس کی آڈیو بھی شامل تھی۔ اس وقت سب نے بہت اعتراض کیا کہ سابق چیف جسٹس اپنی ساس کی آڈیو کے ہوتے ہوئے خود ہی یہ کیس کیوں سن رہے ہیں۔ لیکن انھوں نے تمام اعتراض مسترد کرتے ہوئے خود ہی سن کر خود ہی حکم امتناعی جاری کر دیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ اب حکومت سے پوچھ رہی ہے کہ یہ آڈیوز کس نے ریکارڈ کی ہیں؟وہ حکومت سے پوچھ رہی ہے کہ شہریوں کی آڈیوز اس طرح کیسے ریکارڈ ہو سکتی ہیں؟عدالت نے گزشتہ سماعت میں حکومت کو اس حوالے سے مہلت دی ہے کہ حکومت کسی واضح موقف اور جواب کے ساتھ پیش ہو۔

دیکھا جائے تو اسلام آباد ہائیکورٹ کا موقف غلط نہیں ہے۔ کسی بھی شہری کی پرائیوٹ گفتگو اس طرح ریکارڈ نہیں کی جانی چاہیے۔ لوگوں کی ذاتی گفتگو کو ایک تحفظ حاصل ہونا چاہیے۔ ان آڈیوز کی ریکارڈنگ کو کسی بھی طرح جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس طرح کی آڈیوز کی ریکارڈنگ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوئی ہے۔آج بشریٰ بی بی اور چیئرمین تحریک انصاف اپنے آڈیوز کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ آج ثاقب نثار اپنی آڈیوز کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ لیکن یہ سب لوگ اپنے اپنے دور میں اپنے اپنے مخالفین کی آڈیوز نہ صرف لیک کرتے تھے بلکہ اس پر فخر بھی کرتے تھے۔ اور اس کا بھر پور سیاسی فائدہ بھی اٹھاتے تھے۔ جو لوگ کل تک اپنے مخالفین کی آڈیوز لیک کرواتے تھے۔

آج اپنی آڈیوز لیک ہونے پر رو رہے ہیں۔ کل تک جو جائز تھا آج ان کے لیے ناجائز ہو گیا ہے۔ کل تک آڈیو آڈیو کھیلنے والے آج آڈیو آڈیو بچائو کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ کیا کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ کل مریم نواز کی آڈیوز کیسے لیک ہو رہی تھیں۔ نظام عدل سے گلہ یہی ہے کہ تحریک انصاف کے لیے معیار مختلف ہیں جب کہ تحریک انصاف کے مخالفین کے لیے معیار مختلف رہے ہیں۔کل تک تحریک انصاف کا موقف یہی رہا ہے کہ آپ یہ بات مت کریں کہ آڈیوز لیک کہاں سے ہوئی ہیں۔ یہ مت پوچھیں کہ کون لیک کر رہا ہے۔ یہ مت پوچھیں کہ یہ جائز ہے یا ناجائز۔ صرف توجہ اس بات پر رکھی جائے کہ آڈیو میں بات کیا ہو رہی ہے۔ آپ بات پر غور کریں۔

آپ دیکھیں صحافیوں کو ٹوکریاں بھجوانے کی بات ہو رہی ہے۔ دیکھیں کرپشن پکڑی گئی ہے۔ ٹوکریاں دی جا رہی ہیں۔ دیکھیں اشتہارات کی بات ہو رہی ہے۔ دیکھیں میڈیا مینجمنٹ ہو رہی ہے۔ آپ جرم پر توجہ دیں‘ کیسے سامنے آرہا ہے اس پر توجہ نہ دیں۔آج دیکھیں گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ آج پی ٹی آئی یہ واویلا کر رہی ہے کہ جرم پر توجہ نہ دی جائے بلکہ یہ دیکھیں کیسے سامنے آرہا ہے۔ شہری آزادیوں کے اصول کو دیکھیں۔ آج جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کا تحریک انصاف کی ٹکٹ فروخت کرنے کا جرم کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اہمیت یہ ہے کہ اس جرم کو بے نقاب کرنے کی آڈیو جو سامنے آئی ہے‘ وہ کیسے آئی ہے۔

آج ٹکٹوں کی فروخت کا جرم، جرم نظر نہیں آرہا۔ کیا آج یہ تحقیقات اہم نہیں ہیں کہ کیا واقعی ٹکٹوں کی خریدو فروخت ہوئی ہے کہ نہیں۔ آج اسی طرح بشریٰ بی بی کی پانچ ہیروں کی انگوٹھی کی آڈیو کی تحقیقات اہم کیوں نہیں ہیں کہ کیا وزیر اعظم کی بیگم نے پانچ قیراط ہیرے کی انگوٹھی مانگی تھی کہ نہیں۔ یہ انگوٹھی دی گئی کہ نہیں۔ آج کیوں یہ اہم نہیں کہ کیسز کی سماعت میں بعض ججز کے اہل خانہ کا کردار اہم کیوں ہے۔کیوں چند ججز کے اہل خانہ کی سیاسی وابستگیاں ان کے فیصلوں کی عکاس ہیں۔ آج اس سب کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ آج کہا جا رہا ہے کہ اس سب معاملے پر مٹی ڈال کر صرف اس بات کی تحقیقات کی جائیں کہ آڈیوز کیسے لیک ہوئی ہیں‘ ان آڈیوز سے جو حقیقت سامنے آئی ہے اس پر بات نہ کی جائے۔

کل اگر کسی کیمرے کی خفیہ ریکارڈنگ سے کوئی جرم بے نقاب ہو گا تو کیا اس جرم کی تحقیق نہیں ہو گی؟ اگر خفیہ کیمرے سے ریپ کیس سامنے آئے تو کیا ریپ کا جرم جرم نہیں رہے گا۔ اگر خفیہ کیمرے سے قتل سامنے آئے گا تو کیا قتل ختم ہو جائے گا کہ ریکارڈنگ خفیہ ہے۔خفیہ ریکارڈنگ جرم ہو سکتا ہے‘ غلط ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر اس کے نتیجے میں کوئی جرم اور کوئی حقیقت سامنے آرہی ہے تو اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ میں سمجھتا ہوں تحقیقات ہونی چاہیے۔ باقی سب معاملات کو بھی دکھا جا سکتا ہے۔

اس ملک میں آڈیو ریکارڈنگ کا مسئلہ پرانا ہے۔ جیسے مسنگ پرسن کا مسئلہ پرانا ہے۔ ملک میں کئی مسائل پرانے ہیں۔ آزادی اظہار کا مسئلہ بھی پرانا ہے۔ عدلیہ یا پارلیمنٹ ملک میں خفیہ آڈیو ریکارڈنگ کا مستقل حل کرنا چاہتے ہیں یہ اچھی بات ہے۔وہ کوئی قابل عمل فیصلہ دینا چاہتے ہیں یہ اچھی بات ہے۔ وہ کوئی قواعد بنانا چاہتے یہ اچھی بات ہے۔لیکن ان آڈیوز میں جو جرم یا حقیقت سامنے آئی ہے اس کی تحقیقات کو روکنا جائز نہیں ہے۔ ہیروں کی انگوٹھی کا معاملہ کوئی چھوٹا معاملہ نہیں ہے۔اس کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ جب تک رولنگ کلاس کو من مانیاں کرنے سے روکا نہیں جائے‘ نظام درست نہیں ہو گا۔ عدالت کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ متاثرہ فریق صاف ہاتھوں صاف دامن کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا ہے کہ نہیں۔ فریق کو دونوں طرف کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں