تحریر: اصغر عظیم
پاکستان میں صحافت ٹائپ رائٹر، کاربن کاپی، قلم، فوٹوگرافی ٹیلکس اور فیکس سے ترقی کرتے کرتے ویڈیو جرنلزم، سوشل میڈیا، الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کی جدید شکل کے ساتھ ویب میڈیا اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس تک پہنچ گئی، لیکن اس دوران صحافی اور میڈیا ورکرز مختلف گروپس میں تقسیم در تقسیم ہوگئے، دوسری جانب بات یلو جرنلزم سے بہت آگے نکل گئی اب ہمارے اداروں میں پروفیشنل اور نان پروفیشنل جرنلسٹس کے ساتھ مطلب پرست اور ابن الوقت جرنلسٹس کے گروپ قابض ہوگئے، قبضہ جرنلزم گروپس کے پیچھے سب سے اہم کردار میڈیا مالکان کا ہے، کبھی پرنٹ میڈیا کے چند ادارے ہوتے تھے جن کے مالکن پروفیشنل ازم سے سرشار ہوتے تھے اسی لئے صحافت بھی پروفیشنل جرنلزم کے گرد گھومتی تھی لیکن وقت بدلا الیکٹرونک میڈیا کی انٹری ہوئی تو جرنلزم بھی بدل گئی۔ اب پروفیشنل کی عزت صرف اتنی ہے جتنی کہ وہ اپنے گھر میں راشن ڈلوا سکتا ہے، نان پروفیشنل اداروں میں اس طرح قابض ہیں کہ جیسے وہ سول مارشل لاء کے ایڈمنسٹریٹر ہیں، آٹے والا، بیکری والا، تیل والا، سیمنٹ بجری والا، تعلیمی اداروں سے وابستہ اور تعمیرات کی صنعت سے وابستہ افراد سب میڈیا کے سیٹھ ہیں، ان سیٹھوں کو جرنلزم سے کوئی لینا دینا نہیں ان کا کام صحافی کو استعمال کرکے اپنے بزنس کو تحفظ فراہم کرنا، صاحب اختیار اور صاحب اقتدار سے اپنے روابط مضبوط بنانا ہے، میڈیا میں آنے سے پہلے یہ سیٹھ لوگ اپنے کاروبار کے مسائل اور گھپلے حل کرنے کے لئے مختلف سرکاری اداروں کو لاکھوں کروڑوں روپے رشوت دیتے تھے لیکن میڈیا سیٹھ بننے کے بعد رشوت کے اس سسٹم کے خلاف جہاد کرنے کے بجائے ان لوگوں نے صحافت کو ملازمت میں بدل دیا، آج کا صحافی سسٹم کو بے نقاب نہیں کرتا بلکہ سسٹم کا حصہ بن کر اپنے سیٹھ کے ناجائز کام کرواتا ہے اس صورتحال کا فائیدہ نان پروفیشنل لوگوں نے خوب اٹھایا اب میڈیا ہاؤسز میں بیوروچیف، ڈائریکٹر نیوز، کنٹرولر نیوز، شفٹ انچارج، رن ڈاؤن پروڈیوسر یہاں تک کے مختلف پروگرام کے پروڈیوسر، ایڈیٹرز، ریزیڈنٹ ایڈیٹر اور ایڈیٹر انچیف کی اکثریت نان پروفیشنل ہیں ان اہم عہدوں خاص کر ڈائریکٹر نیوز، کنٹرولر نیوز اور بیوروچیف ایسے ہیں جنہیں فیلڈ رپورٹنگ کا ایک دن کا بھی تجربہ نہیں جس پر پروفیشنل جرنلسٹس ماتم کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ نان پروفیشنل الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے پلیٹ فارم کا استعمال کرکے کسی تھانے کے ہیڈ محرر کی طرح ایک کام اپنے ایس ایچ او کا کرواتے ہیں تو اسی ایس ایچ او کے نام پر چار کام اپنے کروا رہے ہیں لیکن ایس ایچ او کی طرح میڈیا کے سیٹھوں کو بھی صرف اپنے کام سے مطلب بھلے اس کام کی وجہ سے ان کی عزت کا جنازہ نکلتا ہے تو نکلے۔۔۔۔
ترقی کے اس سفر میں ایک اصطلاح نے اور تیزی سے ترقی کی اور وہ ہے لفظ “سینئر” کا استعمال ۔۔۔۔ فیلڈ جرنلسٹس ہو یا نان پروفیشنل جرنلسٹس، نیوز اینکر ہو یا اینکر پرسن(یاد رکھیں فیلڈ جرنلزم کا تجربہ نہ رکھنے والا اینکر پرسن صحافی کی تعریف میں نہیں اتا) یا ہو تجزیہ نگار سب کو اپنے نام کے ساتھ “سینئر” لگانے کا ایسا کلچر چلا کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ صحافت کو اپنی زندگی دینے والے کس کٹیگری میں آتے ہیں ان کے لئے کونسی اصطلاح استعمال کی جائے، اس اصطلاح کو تقویت دینے میں آزادی صحافت کے علمبردار صحافی تنظیموں اور پریس کلبوں کا کردار سب سے اہم ہیں، جب آپ چھ ماہ کے قلمکار، مائیک پکڑنے والوں اور نان پروفیشنل صحافیوں کو اپنے ادارے کی ممبر شپ اس نیت سے دینگے کہ ہم ادارے کی ممبر شپ دیکر انہیں اپنا ووٹر بنا رہے ہیں تو پھر آزادی صحافت کے جنازے کو پہلا کندھا دینا بھی آپ کی ہی زمہ داری ہے۔
ترقی کے اس سفر میں آزادی صحافت کے ایک علمبردار اسٹیبلشمنٹ کا کردار بھی پروفیشنل اور نان پروفیشنل جرنلزم کے درمیان ایسا پروان چڑھا کہ ” چپ رہے زبان خنجر ہوتی نہیں تکلیف لیتا ہے لہو کا قطرہ قطرہ قاتل کا نام” گویا اسٹیبلشمنٹ کے کردار نے ملک میں سوال پوچھنا یا اٹھانا بھی ایک جرم قرار دیدیا۔ حکمرانوں سے سوال کرو تو میڈیا کے سیٹھ نوکری سے فارغ کر دیتے ہیں، حزب اختلاف سے سوال کرو تو جواب ملتا ہے کہ ہم جانتے ہیں کس کے کہنے پر سوال کررہے ہو اور اسٹیبلشمنٹ سے سوال کرو تو سوال کرنے والا نوکری سے تو جاتا ہی ہے لیکن اسکرین کے ساتھ معاشرے میں بھی لاپتہ ہو جاتا ہے۔ گویا اسٹیبلشمنٹ کہتی ہے وہ دیکھو جو ہم دیکھائیں، وہ بولو جو ہم بولیں، وہ لکھو جو ہم لکھوائیں۔ دماغ، آنکھیں، زبان، قلم، مائیک، سب تمہارا لیکن سوچ اور زبان ہماری ۔۔۔۔ ایسے میں آزادی صحافت کی بات کرنے والے سینکڑوں پروفیشنل صحافیوں کو زمین کھاگئی اور آزادی صحافت کے علمبردار ایک دو مظاہرے کے ساتھ اور کچھ نہ کرپائیں کیونکہ آزادی صحافت کے علمبردار رہنماؤں کو بھی حق دلانے سے زیادہ اپنے حقوق، اسٹیبلشمنٹ اور سیٹھ سے دوستی عزیز ہے۔
اب آیا دور جدید میں ایک نیا دور جہاں منہاج برنا یا ان کے رفقاء کا دور دور تک پتہ نہیں اگر کچھ نظر آتا ہے تو وہ ہے “پیکا ایکٹ” یعنی اب صحافی کسی کے خلاف اپنے مشاہدے اور ثبوتوں کی روشنی میں کوئی بات کرے تو صحافی کے خلاف شکایات متاثرہ شخص نہیں بلکہ پورا معاشرا شکایت درج کرواسکتا ہے۔ یعنی ایک صحافی جو کبھی معاشرے کا آئینہ اور دوست سمجھا جاتا تھا آج اسی معاشرے کا وہ سب سے بڑا دشمن سمجھا جاتا ہے۔ لیکن آزادی صحافت کے علمبردار اپنے اپنے گروپس کے مفادات کے تحفظ کے لئے اپنے اپنے مخصوص انداز میں “پیکا ایکٹ” کے محافظ بنے ہوئے ہیں ۔۔(اصغرعظیم)۔۔