آزادیٔ صحافت: خواب یا حقیقت؟

تحریر: شمعون عرشمان۔۔

پاکستان میں آزادیٔ صحافت ایک ایسا خواب ہے جو ہر صبح تازہ امیدوں کے ساتھ آنکھ کھولتا ہے، مگر شام تک مصلحتوں، دباؤ اور خوف کے اندھیروں میں گم ہو جاتا ہے۔

آئینِ پاکستان کہتا ہے کہ ہر شہری کو اظہارِ رائے کی آزادی حاصل ہے، مگر عملی دنیا میں یہ آزادی مخصوص حدود و قیود میں قید ہے۔ صحافی اگر اقتدار کے ایوانوں پر سوال اٹھائے، طاقتور اداروں پر انگلی رکھے یا پسے ہوئے عوام کی چیخوں کو قلم کی زبان دے تو “ریڈ لائنز” یاد دلا دی جاتی ہیں۔

یہ سچ ہے کہ پاکستان کا میڈیا کبھی مکمل خاموش نہیں رہا۔ ہر دور میں ایسے صحافی پیدا ہوئے جنہوں نے جبر کے سائے میں بھی سچ لکھا۔ چاہے جنرل ضیاء الحق کا مارشل لا ہو یا جمہوری حکومتوں کی درپردہ سنسرشپ، صحافت نے اپنے حصے کا دیا جلایا۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ ہر دور میں اس روشنی کو بجھانے والے ہاتھ بھی موجود رہے۔

ریٹنگ کی دوڑ، اشتہارات کی محتاجی، مالکان کی مصلحتیں اور سیاسی وابستگیاں… یہ سب آج کے میڈیا کو ایک بازار کی شکل دے چکے ہیں جہاں سچ کم، مفاد زیادہ بکتا ہے۔ جہاں خبر سے پہلے دیکھا جاتا ہے کہ اسے نشر کرنے کی “اجازت” بھی ہے یا نہیں۔

عدالتیں بھی صحافت کے میدان میں کبھی امید کی کرن بنیں، تو کبھی مایوسی کی دھند۔ بعض مقدمات میں عدالتوں نے آزادیٔ اظہار کا دفاع کیا، مگر کئی مواقع پر فیصلے یا ریمارکس نے صحافیوں کے قلم کو مزید کمزور کر دیا۔

ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل میڈیا نے ایک نیا در کھولا ہے۔ اب ایک عام شہری بھی آواز بلند کر سکتا ہے، ویڈیو اپ لوڈ کر سکتا ہے، سوال پوچھ سکتا ہے۔ مگر یہاں بھی خطرے کم نہیں۔ سائبر کرائم کے مقدمات، سوشل میڈیا ریگولیشنز اور ڈیجیٹل سنسرشپ نئی شکل میں وہی پرانی رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہیں۔

صحافیوں پر حملے، اغوا، قتل، جھوٹے مقدمات اور سوشل بائیکاٹ—یہ وہ سچ ہیں جن پر بات کرنا بھی بعض اوقات جرم بن جاتا ہے۔ عالمی ادارے بار بار خبردار کرتے ہیں کہ پاکستان میں صحافی خطرے میں ہیں، مگر یہ آوازیں اکثر نظرانداز کر دی جاتی ہیں۔

کیا یہ سب مایوسی کی تصویر ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ اس اندھیرے میں بھی کچھ روشن چہرے، بے خوف آوازیں اور سچ لکھنے والے ہاتھ موجود ہیں۔ نئی نسل کے صحافی سوال پوچھ رہے ہیں، مزاحمت کر رہے ہیں اور نئی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔

ضرورت ہے کہ:

میڈیا کو ادارتی آزادی دی جائے۔

اشتہارات کی بندر بانٹ سیاسی رشوت نہ بنے۔

قانون سازی ایسی ہو جو صحافی کو تحفظ دے، دھمکی نہ بنے۔

میڈیا ادارے اپنے اندر بھی شفافیت لائیں۔

اور سب سے بڑھ کر، عوام صحافت کے کردار کو پہچانیں اور آزادیٔ اظہار کا دفاع کریں۔

یاد رکھیں، صحافت صرف خبر دینے کا ذریعہ نہیں۔ یہ ایک ذمہ داری ہے۔ ایک جدوجہد ہے۔ ایک وعدہ ہے سچ سے، عوام سے، اور آنے والے کل سے۔

اگر ہم نے اس وعدے کو نبھایا، تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں آزادیٔ صحافت صرف کتابوں یا قراردادوں کا لفظ نہیں، بلکہ زندہ، بیدار اور بے خوف حقیقت بن جائے گی۔

 اختتامیہ

آزادیٔ صحافت صرف صحافیوں کا مسئلہ نہیں۔ یہ ہر باشعور شہری کی لڑائی ہے۔ کیونکہ اگر سچ دب گیا، تو سوال مر جائیں گے… اور سوال نہ رہیں، تو جمہوریت صرف ایک تماشہ بن کر رہ جائے گی۔(شمعون عرشمان)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں