تحریر: عمیر علی انجم۔۔
اے آر وائی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون رپورٹر کی تحریر میرے سامنے ہے جس میں انہوں نے ان وجوہات کا ذکر کیا ہے جس کے باعث وہ شعبہ صحافت ہی چھوڑ گئی ہیں ۔آئیں پہلے ایک نظر ان کی تحریر کی جانب ڈالتے ہیں ۔وہ لکھتی ہیں کہ ”جو لوگ مجھ سے ان دنوں میرے صحافت چھوڑنے کے فیصلے سے اختلاف کر رہے ہیں وہ یہ دیکھ لیں.. صحافت کو خیرباد کہنے کی اک وجہ صحافت کا اختتام ہے.. معذرت لیکن اگر یہ سوالات ہم نے کچھ سال پہلے کیے ہوتے، میڈیا ہاسز کے باہر احتجاجی دھرنے اس وقت دیئے ہوتے جب قلم روکے جا رہے تھے، جب سچ بولنے لکھنے اور کہنے سے روکا جا رہا تھا، جب حقیقت پر مبنی رپورٹ پیکجز نشر ہونا بند ہونے لگے تھے، اگر ہم اس وقت قدم اٹھاتے تو شاید آج حالات یہ نہ ہوتے.. ہم نے اس قلم کے رکنے پر آواز نہیں اٹھائی جو قلم ہمارے رزق کا ذریعہ تھا لیکن آج جب تنخواہ ملنی بند ہوئی اور صحافیوں کی اپنی قدر ختم ہونے لگی تو سب کی آوازیں نکل رہی ہیں، آج وہ لوگ بھی آزادی صحافت کے نعرے بلند کر رہے ہیں جو ناصرف خاموش رہنے اور خبر دبانے کے بھی پیسے لیا کرتے تھے بلکہ نشر کرنے کے بھی. یہ زیادہ تر وہ لوگ تھے جو بنیادی طور پر صحافی نہیں تھے، جو صرف کمانا اور روپیہ بنانا جانتے تھے، اور جن کے باعث آج وہ اصل صحافی بھوکے مر رہے ہیں جنہوں نے اپنا سب کچھ تمام وقت بلکہ پوری زندگی سچ کہنے اور دکھانے کی کوشش میں لگادی، نقصان صرف ان لوگوں کا ہوا ہے جنہوں نے کبھی صحافت کو شعبہ نہیں بلکہ اپنا جنون اور دلی تسکین سمجھا، برباد صرف وہ لوگ ہوئے جنہوں نے سچ اور ایمانداری کی خاطر اپنے اور اپنے بچوں کی زائد خواہشات کو دفن کر کے اس پر مخلصی کی چادر چڑھا دی. اور آج وہ لوگ اس شعبے کے حکمراں اور سربراہ بنے بیٹھے ہیں جو کاروبار کے تمام تر گر تو جانتے ہیں لیکن سچائی ایمانداری مخلصی اور سچ دکھانے اور لکھنے کے جنون سے ناصرف ناواقف ہیں بلکہ جاننا بھی نہیں چاہتے..اس تحریر کا ایک ایک لفظ ہمارے لیے کسی تازیانے سے کم نہیں ہے ۔میرادکھ یہی تو ہے ۔۔ میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ اگر ہم نے اس وقت ان عظیم رہنماؤں سے سوالات کے جواب نہ مانگے تو یہ شعبہ ”حقیقی” لوگوں سے خالی ہوجائے گا ۔۔یہاں آپ کو صرف بہروپیے نظر آئیں گے ۔۔جو نجانے کس کس کا ایجنڈا پورا کرکے اپنے خزانوں میں مزید اضافہ کرتے چلے جائیں گے ۔۔”تم سنورتے جارہے ہو ۔۔ہم بکھرتے جارہے ہیں ۔۔بات تو سخت ہے لیکن اب کرنی ہوگی ۔۔اگر ہمیں شعبہ صحافت کو ”پاک ” کرنا ہے تو اب ان عظیم رہنماؤں کا احتساب کرنا ہوگا ۔۔۔۔اگر اب بھی ہمار ے ہاتھ ان کے گریبانوں تک نہ پہنچے تو ہمارے اپنے ہاتھ کٹ جائیں گے ۔۔(عمیرعلی انجم)۔۔