علی عمران جونیئر
دوستو،سیاست بھی کیا ظالم چیز ہے، جو آج فرعون بنے بیٹھے ہوتے ہیں وہ کل بھولی بسری داستان بن جاتے ہیں، کسی دانا نے کیا خوب کہاتھا۔۔ قبرستان ایسے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو یہ سمجھتے تھے کہ یہ دنیا ان کے بغیر نہیں چل سکتی۔ کل تک جو بااختیار تھے وہ آج گالیاں کھارہے ہیں، اور جنہیں آج طاقت کازعم ہے وہ کل گمنامی کی زندگی گزار رہے ہوں گے۔ دنیا اسی کا نام ہے۔ اللہ نے قرآن پاک میں پہلے ہی فرما دیا تھا کہ۔۔بے شک انسان خسارے میں ہے۔۔اور جس کے متعلق اللہ نے فرمادیا تو بطور مسلمان ہم اسے پتھر پر لکیر سمجھتے ہیں۔ سیاست تو ہر کوئی کررہا ہے، اسی سیاست کے حوالے سے کچھ ان کہی کہانیاں آپ کو بھی سناتے ہیں، تاکہ آج کی آپ کی چھٹی خوشگوار گزرے۔۔
بشری بی بی کی جب جیل میں عمران خان سے دو گھنٹے طویل ملاقات ہوئی ۔۔ خان کے ساتھ رسمی گفتگو ہوئی اور خان کو کارکنان کے جذبے سے آگاہ کیا گیا۔یوتھیوں کی رخ مہتاب کو دیکھنے کی شدت، محبت، مودت، عقیدت، تڑپ اور جذبے سے خان کو جب آگاہ کیا گیا تو خان کے دل میں آزادی کا شوق پیدا ہوا، آزادی تو ظاہراً نا ممکن ہے تو خان نے تسکین قلب کیلئے بشری بی بی سے پوچھا۔۔ بیگم آپ روحانی طور پر میری آزادی کیلئے وظائف کریں،آپ کے پاس جو اسپریچوئل پاورز ہیں وہ پاکستان میں کسی کے پاس نہیں، یہ بتائیں میں آزاد کب ہوں گا؟ کیونکہ آپ کی پیشنگوئی کبھی جھوٹی ثابت نہیں ہوئی۔آپ نے 2013 میں جہانگیر ترین کی کامیابی کی بشارت دی سچ ثابت ہوئی، نواز شریف کی نااہلی کی پیشن گوئی بھی درست ثابت ہوئی، 2018 الیکشن میں میری 116 سیٹوں کی کامیابی کی پیشنگوئی کی ، جو سب کی سب صد فیصد برحق تھی، آپ نے کہا پنجاب سے اگر ۔۔ع۔۔ حرف کے وزیرِ اعلیٰ کو ہٹاؤ گے تو وفاق کی حکومت گرے گی،یہ بھی سچ تھا، سب سے بڑی پیشنگوئی یہ کہ اگر میری شادی آپ سے ہوگی تو میں وزیر اعظم بن جاؤں گا، یہ بھی درست ثابت ہوئی۔ اپنے مؤکل سے پوچھ کر بتائیں میں کب اس قید با مشقت سے رہائی پاؤں گا؟؟بشریٰ بی بی نے سرد آہ بھری، نظریں جھکائیں، چہرہ اٹھا کر کمرے کے روشن دان کو دیکھا، اور خان کو قریب ہونے کا اشارہ دیا، خان نے خوشخبری سننے کے چکر میں کان قریب کیا تو بشری بی بی دبی دبی سی آوازمیں ہولے ہولے بولیں۔۔وہ مؤکل خود کُھڈے لائن اور ہاؤس اریسٹ ہے۔۔پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔۔
ایک شخص کسی جرم میں جنگلی قبیلے میں پھنس گیا۔قبیلے کے سردار نے اس شخص کو دوآپشندیے۔۔نمبر ایک ، شانگالولو ، لے لو یا نمبر دو سزائے موت لو۔۔اس شخص نے پوچھا، شانگالولو کیا ہے؟ قبیلے کے سردار نے بتایا کہ۔۔شانگالولو یہ ہے کہ آپ کو برہنہ کیا جائے گا اور قبیلے کا ہر شخص تمہیں 100 چھتر مارے گا۔ ۔اس شخص کو شانگالولو بے عزتی لگی، وہ کہنے لگا۔۔مجھے سزا موت دے دو۔ ۔سردار نے حکم دیا۔۔ اس میں بہت اکڑ ہے، اس کو موت بذریعہ شانگالولو دی جائے۔ ۔واقعہ کی دُم: پچھلی حکومتوں نے عوام کو صرف شانگا لولو کیا تھا اور نگران حکومت سزائے موت بذریعہ شانگا لولو دے رہی ہے۔۔نپولین بونا پارٹ دوبارہ زندہ ہو کر امریکہ، اسرائیل اور پاکستان کا دورہ کرتا ہے۔ امریکی دورے کے بعد وہ امریکن صدر سے کہتا ہے کہ۔۔اگر میرے پاس آپ کا فوجی سازوسامان اور تربیت ہوتی تو میں واٹر لو کی جنگ نہ ہارتا۔ اس کے بعد وہ اسرائیل جاتا ہے اور اپنے دورے کے اختتام پر اسرائیلی وزیراعظم سے کہتا ہے کہ۔۔اگر مجھے آپ کی ایجنسی موساد جیسا جاسوسی کا نظام میسر ہوتا تو میں واٹر لو کی جنگ نہ ہارتا!۔۔ آخر میں وہ پاکستان آتا ہے اور ایئرپورٹ پر واپسی پر پاکستان کے وزیراعظم سے کہتا ہے۔۔اگر میرے پاس آپ کا پریس، ٹیلی ویژن اور میڈیا ہوتا تو آج تک کسی کو معلوم نہ ہوتا کہ میں واٹر لو کی جنگ ہار گیا تھا!۔۔ایک گھر میں رشتے کے لئے لڑکی والے گئے ،ابتدائی رسمی علیک سلیک کے بعد وہ سیدھے مدعے پر آئے اور پوچھا۔۔ لڑکا کیا کرتا ہے؟لڑکے کے والدین نے بتایا۔۔ جی لڑکا تو ڈاکٹر ہے، انجینئرنگ بھی جانتا ہے، وکالت بھی کرلیتا ہے، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ، معاشی ماہر، خلاباز، آئی ٹی پروفیشنل، ماہر موسمیات،سب کچھ ہے۔۔۔لڑکی والے حیران ہوکر بولے۔۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ لڑکے کے والدین نے سادگی سے کہا۔۔ وہ پاک فوج میں افسر ہے۔۔ایک لومڑی نے نہر کے دوسری کنارے کھڑے اونٹ سے پوچھا۔۔ نہر کا پانی کہاں تک پہنچتا ہے؟ اونٹ نے جواب دیا۔۔ گھٹنے تک، جیسے ہی لومڑی نے پانی میں چھلانگ لگائی ڈوبنے لگی، کبھی غوطے کھاتی کبھی سر باہر نکالتی، بڑی مشکل سے نہر میں ایک چٹان کے ساتھ چپک گئی۔ آہستہ آہستہ چٹان کے اوپر آگئی اور سانس بحال ہوتے ہی غصے سے اونٹ سے کہا۔۔ تم نے کیوں کہا کہ پانی گھٹنے تک آتا ہے؟ اونٹ نے جواب دیا۔۔ ہاں پانی میرے گھٹنے تک آتا ہے۔واقعہ کی دُم: جب آپ کسی سے مشورہ کرتے ہیں تو عموما وہ آپ کو اپنے تجربات کی روشنی میں جواب دیتا ہے، ممکن ہے جوباتیں اس کے لیے فائدہ مند ہوں وہ آپ کے لیئے نقصان دہ ثابت ہوں، اس لیے کسی اور کے تجربات قطعی حل کے طور پر نہ اپنائیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کو لے ڈوبیں۔
ایک پہاڑی سلسلے کے اوپر رن وے بنا ہوا تھا۔ ایک طیارہ مسافروں سے بھر چکا تھا۔ ابھی تک پائلٹ نہیں آیا تھا۔ کہ اچانک مسافروں نے دیکھا کہ دو افراد ہاتھوں میں سفید چھڑی لئے آنکھوں پر سیاہ چشمے پہنے آئے۔ اور کاک پٹ میں چلے گئے۔مسافروں میں چہ می گوئیاں شروع ہوئیں کہ پائلٹ تو دونوں نابینا ہیں۔ سپیکر پر آواز آئی۔ کہ میں پائلٹ فلاں صاحب جہاز کا کیپٹن بول رہا ہوں اور میرے ساتھ فلاں صاحب میرے معاون پائلٹ ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہم دونوں نابینا ہیں۔ لیکن جہاز کے جدید آلات اور ہمارے وسیع تجربے کو دیکھتے ہوئے فکر کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم باآسانی جہاز چلا لیتے ہیں۔ بے شمار پروازیں کر چکے ہیں۔ مسافروں میں بے چینی کچھ کم ہوئی لیکن ان کی تشویش کم نہ ہوئی۔خیر انجن سٹارٹ ہوا۔ جہاز نے رن وے پر دوڑنا شروع کیا۔ دونوں اطراف میں کھائیاں تھیں۔ مسافر سانس روک کر بیٹھے ہوئے تھے۔ جہاز دوڑتا گیا۔ سامنے بھی کھائی تھی۔ لیکن جہاز دوڑ رہا تھا۔ کھائی کے بالکل قریب جاکر مسافروں کی چیخیں نکل گئیں کہ جہاز نے فلائنگ گیئر لگایا اور ہوا میں بلند ہوگیا۔مائک کھلا رہ گیا تھا۔ معاون پائلٹ کی آواز آئی۔ پائلٹ سے کہہ رہا تھا۔استاد جی کسی دن مسافروں کو چیخنے میں دیر ہوگئی تو پھر کیا بنے گا؟واقعہ کی دُم: بجلی کے بلوں نے عوام کی چیخیں نکالیں تو نگرانوں نے عوام کو ریلیف دینے کافیصلہ کرلیا۔۔
اور چلتے چلتے اب آخری بات۔۔زندگی میں آگے بڑھنا ہے تو بہرے بن جاؤ، کیوں کہ بعض لوگوں کی باتیں مایوسی میں اضافہ کردیتی ہیں۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔