پاکستان کے معتبر صحافی جناب رئوف کلاسرا نے اپنے کالم “گوتم کا آخری واعظ”میں سوشل میڈیا کا نوحہ لکھتے ہوئے لکھا ہے کہ اخبار اور ٹی وی چینل پر ابھی بھی کوئی روکنے والا تھا۔۔۔۔۔ایڈیٹر تھا۔۔۔۔۔۔ نیوز ایڈیٹر، سب ایڈیٹر، بیوروچیف تھے جو کسی بھی خبر کو شائع کرنے سے پہلے ہر زاویے سے اس کی تصدیق کرتے۔۔۔۔۔۔بارہ گھنٹے کا وقت ہوتا تھا خبر چھپنے کا لہذا ہر قسمی احتیاط برتی جاتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایڈیٹر کا رعب تھا۔ رپورٹر کو علم تھا نا صرف اخبار کی عزت خطرے میں ہے بلکہ اگر اس کی اپنی خبر غلط نکل آئی تو مستقبل تباہ، نوکری ختم ہو جائے گی اور وہ کسی کو منہ دکھانے قابل نہیں رہے گا۔۔۔۔۔۔یوں ایک پروفینشل گرومنگ ہوتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر ٹی وی آیا تو وہاں کسی حد تک پروفیشنل پابندیاں کم تھیں اور جس کے ہاتھ مائیک آگیا اس نے اودھم مچادی لیکن سوشل میڈیا ایج میں لوگ یو ٹیوب کے خود ہی مالک بن گئے۔۔۔۔خود ہی ایڈیٹر۔۔۔۔نیوز ایڈیٹر۔۔۔سب ایڈیٹر اور بیورو چیف ٹھہرے اور معاشرے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔۔۔۔۔۔۔!!!کہنے کا مطلب نیوز روم ریفائنری ہے جس کے بغیر کچرا ہی پھیلے گا ۔۔۔۔
رئوف کلاسرا کا نیوز روم کو خراج تحسین۔۔
Facebook Comments