تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
جو لوگ خواجہ آصف کے مزاج سے واقف تھے وہ بھی حیران تھے کہ وہ کب تک خاموش رہیں گے اور ان کے اردگر جو پلانٹس کے نام پر کھیل کھیلے جارہے ہیں ‘ان کو کب تک نظر انداز کرتے رہیں گے۔آخر ایک دن خواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں سب کا بھانڈا پھوڑ دیا جب انہوں نے پاور پلانٹس مالکان کو ڈاکو قرار دیا کہ وہ ملک اور عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ پاور پلانٹس مالکان حکومت سے سستا تیل لے کر جو استعمال سے بچ جاتا ہے وہ مارکیٹ میں مارکیٹ ریٹ پر بیچ کر اس سے بھی بڑا پیسہ کما رہے ہیں۔خواجہ نے کہا کہ جب انہوں نے اس تیل کا آڈٹ کرانا چاہا تو انہوں نے عدالت سے سٹے لے لیا۔ مزے کی بات یہ کہ کوئی اس سٹے کو خارج کرانے کی کوشش بھی نہیں کررہا تھا۔
کچھ معاہدوں کے تحت حکومت پلانٹس مالکان کو عالمی مارکیٹ سے مہنگا تیل امپورٹ کر کے اس پر سبسڈی دے کر سستا دے رہی تھی جبکہ وہ سستا تیل لے کر اسے بڑے پیمانے پر مارکیٹ میں چند روپے فی لٹر کم کر کے بیچ رہے تھے۔خواجہ آصف نے کہا کہ تیل پر بجلی پیدا کرنے کی وجہ سے پاکستان سالانہ 16 ارب ڈالرز کا فیول منگوا رہا ہے اور یہ خرچ روز بروز بڑھ رہا ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوئی‘ایک دن اس وقت کے وزیرپٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے انکشاف کیا کہ جب وہ قطر سے ایل این جی کا معاہدہ کرنے کا منصوبہ سامنے لائے انہیں دھمکیاں دی گئیں کہ اگر تم نے ایل این جی منگوائی تو تمہارا حشر کر دیا جائے گا۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آئل امپورٹ مافیا بہت تگڑا ہے جس کو خطرہ تھا کہ اگر فیول کی بجائے بجلی ایل این جی پر بننا شروع ہو گئی تو وہ جو لمبا مال تیل سے کما رہے ہیں وہ کمائی کم ہو جائے گی۔ تاہم جب شاہد خاقان عباسی سے پوچھا گیا کہ وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے حکومت کے ایک وزیر تک کو تڑی لگا دی تو عباسی صاحب ٹال گئے۔ جس پر کچھ سوالات بھی اٹھے کہ واقعی کسی نے دھمکی دی بھی تھی یا وہ خود ہی یہ بات بنا کر ایل این جی ڈیل کا راستہ ہموار کررہے تھے جس پر اُن دنوں اعتراضات ہورہے تھے کہ قطر سے مہنگا سودا کیا جارہا ہے؟ پارلیمنٹ میں بھی اس پر خاصا شور شرابہ ہوا کہ وہ معاہدہ سامنے لایا جائے کہ کس ریٹ پر قطر سے سودا کیا جارہا ہے۔اس شک کی وجہ یہ تھی کہ وزیراعظم نواز شریف کی قطریوں کے ساتھ کاروباری پارٹنرشپ تھی‘ جس کا راز بعد میں پانامہ کیس میں کھلا جب شریفوں نے عدالت کو بتایا کہ لندن کے فلیٹس جن پر سارا ہنگامہ ہوا تھا وہ دراصل ان کی قطریوں سے کاروباری سیٹل منٹ کا نتیجہ تھا۔ اگرچہ پانامہ دستاویزات کچھ اور کہانی سناتی تھیں۔
یوں شک یہی تھا کہ اسحاق ڈار کے بعد نواز شریف کے دوسرے قابل ِاعتماد بندے سیف الرحمن قطر میں ان کا بزنس دیکھتے تھے۔سیف الرحمن بارے کہا جاتا ہے کہ وہ شریف فیملی کے فرنٹ مین تھے جو چینی کمپنیوں کے ساتھ بزنس سے قطریوں تک سب معاہدوں اور مفادات کا خیال رکھتے ہیں۔ نواز شریف نے ان اہم لوگوں ساتھ فورا ًرشتہ داری کر لی تاکہ کہیں دھوکے کا امکان نہ رہے۔پہلے اسحاق ڈار کو سمدھی بنا یا تاکہ وہ گھر کے فرد کی طرح سلطنت کی خدمت کرتے رہیں اور راز اپنے دل میں رکھیں کہ یہ گھر کا معاملہ ہے۔اسحاق ڈار کے بعد ایسا ہی بندوبست نواز شریف فیملی نے سیف الرحمن کے ساتھ کیا۔خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا تھا کہ کل کلاں کو وہ بھی سارے راز کھول کر بیٹھ جائیں اور شریف خاندان کو لے ڈوبیں جیسے کبھی 2000ء میں قیدی اسحاق ڈار نے چیئرمین نیب جنرل امجد کے ساتھ ڈیل کی۔ اپنی رہائی کے بدلے ہاتھ سے طویل بیانِ حلفی لکھ کر دیا جس میں انہوں نے شریف فیملی کی منی لانڈرنگ کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا‘ جس کا آج تک شہباز شریف کو بہت دکھ ہے کیونکہ اس میں ایک ایسا راز بھی شہباز شریف کے بارے لکھ دیا تھا جسے وہ چھپا سکتے تھے۔ وہ راز تھا ایک عرب خاتون کا پاسپورٹ جو شہباز شریف نے اسحاق ڈار کو خاتون کے نام پر بینک اکاؤنٹ کھول کر ڈالر ٹرانسفرز کرانے کیلئے دیا تھا‘ جیسے لندن کی قاضی فیملی کے پاسپورٹ پر لاہور کے ایک بینک میں فارن کرنسی اکاؤنٹ کھول کر 1992ء میں نواز شریف دور میں بنائے گئے اکنامک ریفامز ایکٹ کا سہارا لے کر لاکھوں ڈالرز باہر بھجوائے گئے تھے۔ اُس وقت اسحاق ڈار شریف فیملی کے رشتہ دار نہیں تھے‘ لہٰذا انہوں نے اٹک جیل سے جنرل امجد کے ساتھ خفیہ ڈیل کی تاکہ وہ باہر نکل سکیں۔ انہیں اس وقت شریفوں کی نہیں اپنی فکر تھی۔ اسحاق ڈار کے اس فیصلے کے بعد ہی شریفوں نے فیصلہ کیا کہ ڈار اور سیف الرحمن جیسے اہم لوگ جو اُن کی سلطنت کے مینار تھے ‘ ان کے ساتھ رشتہ داری ضروری ہے‘ جیسے تاریخ میں بادشاہ دوسرے ملکوں کے ساتھ فوجی اور سیاسی الائنس بنانے کیلئے بچوں کے رشتے کرتے تھے۔یوں پہلے اسحاق ڈار کے بیٹے کی شادی نواز شریف کی بیٹی سے ہوئی تو ابھی کچھ عرصہ پہلے سیف الرحمن کی بیٹی کی شادی مریم نواز کے بیٹے سے کی گئی ہے۔ مقصد وہی تھا کہ دونوں اہم رازداں ہیں اور انہیں فیملی میں لانا تھا۔
اب پتہ چل رہا تھا کہ ایک طرف شاہد خاقان عباسی شریفوں کے ساتھ مل کر نئی ڈیل کررہے تھے جس پر پارٹی کے اندر بھی مسائل ابھر رہے تھے‘ لیکن اس سے پہلے ان پاور پروڈیوسرز کو ایکسپوز کرنا ضروری تھا جو اس ڈیل کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کررہے تھے کیونکہ انہیں گھر بیٹھے جو پیسہ مل رہا تھا وہ خطرے میں تھا۔ اب بجلی مہنگے فیول پر پیدا کرنے کی بجائے ایل این جی اور کوئلے کے پلانٹس سے پیدا کرنے کے منصوبے بن رہے تھے۔ قطر ہو یا چین‘ ان دونوں ڈیلز میں سیف الرحمن شامل تھے۔ ساتھ میں شہباز شریف اور ان کے بیٹے بھی ایکٹو ہورہے تھے کہ بجلی اور چینی کمپنیوں کے نام پر وہ پاکستان میں کوئلے کے پلانٹس لگا سکتے تھے۔ سیف الرحمن کو ساری گیم کا علم تھا۔ انہوں نے بھی کہا کہ جناب اس پورے کھیل میں کچھ ہمیں بھی دیں۔ سیف الرحمن کے لیے کراچی چنا گیا کہ وہ وہاں کوئلے کا پلانٹ لگانے کا سوچیں جبکہ پنجاب میں اپنا ” شریف بچہ ‘‘ ساہیوال میں چینی کمپنی کو سامنے رکھ کر پلانٹ لگانے کے منصوبے پر کام کررہا تھا‘ جس کیلئے نیپرا میں من پسند افسران کو لگوا کر حیران کن رعاتیں دی جارہی تھیں۔ وہ نیپرا افسر جسے شریف خاندان اپنا بندہ سمجھ کر ایکسٹینشن بھی دے رہا تھا‘ ساتھ ہی شہباز شریف نے دو ڈی ایم جی افسران فواد حسن فواد اور احد چیمہ کو مشن دے دیا کہ انہوں نے کیسے نیپرا سے ایسا ٹیرف اور رعایتیں لینی ہیں کہ سر‘ ہاتھ‘ انگلیاں سب کچھ کڑاہی میں ہو۔ دونوں نے شہباز شریف کو مایوس نہیں کیا۔اس ساری لوٹ مار میں نیا رنگ اُس وقت آیا جب موجودہ نگران وزیر برائے انرجی محمد علی نے بہت محنت کے بعد مارچ 2022ء میں پاور سیکٹر پر ایک شاندار انکوائری رپورٹ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو پیش کی کہ کیسے کیسے پاور سیکٹر میں پاکستان اور عوام کو لوٹا گیا۔ باقی چھوڑیں خود وزیراعظم عمران خان کے اپنے ہاتھ پائوں پھول گئے جب رپورٹ میں انکشافات سامنے آئے۔ شریفوں نے ساہیوال اور کراچی کے کوئلے پلانٹس کے نام پر جو کھیل کھیلا تھا اس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ عمران خان کو بتایا گیا کہ ان کی اپنی کابینہ میں کچھ لاڈلے وزیر جو اُن کے دائیں بائیں بیٹھے تھے وہ بھی پاور سیکٹر میں اس لوٹ مار کے کھیل میں شامل تھے۔انکوائری رپورٹ کے مطابق ایک ایک پلانٹ میں لاکھوں ڈالرز کا لمبا کھیل کھیلا گیا‘ جس کی ادائیگی عوام کی جیب سے ہونی تھی۔
اب وزیراعظم کو فیصلہ کرنا تھا کہ اس نے اپنے لاڈلے وزیروں کو بچانا ہے یا شریفوں کے نیپرا اور ڈی ایم جی افسران کی مدد سے کھیلے گئے لاکھوں ڈالرز کے کھیل کو ایکسپوز کرنا ہے۔(بشکریہ دنیانیوز)